میرے پیارے ہم وطنو!
آزادی کے مبار ک تیوہار کی آپ سب کو بہت بہت مبارک باد ۔ آج ملک خود اعتماد ی سے بھرا ہوا ہے۔ خوابوں کو عزم کی شکل دینے کے ساتھ ہی انتہائی درجے کی محنت کرکے ملک نئی بلندیوں سے گذر رہا ہے ۔ آج کا طلوع آفتاب ایک نئے شعور ، نئی امنگ ، نئے جوش ، نئے ولولے اورنئی توانائی کی نوید لے کر آیا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ہمارے ملک میں 12 سال میں ایک بار نیل کورنجی کا پھول کھلتا ہے ۔ اس سال جنوب میں واقع نیل گری کی پہاڑیوں پر یہ ہمارا نیل کورنجی کا پھول گویا ترنگے پرچم کے اشوک چکر کی طرح ملک کی آزادی کے تہوار میں لہلہا رہا ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آزادی کا یہ تہوار ہم تب منارہے ہیں، جب اتراکھنڈ، ہماچل پردیش ، منی پور ، تلنگانہ ، آندھراپردیش جیسی ریاستوں کی ہماری بیٹیوں نے سات سمندر پار کیا اور ساتوں سمندر کو ترنگے رنگ سے رنگ کر وہ ہمارے درمیان واپس لوٹ آئیں ۔
ایوریسٹ کو کئی بار فتح کیا گیا ، ہمارے متعدد بہادروں نے ، ہماری متعدد بیٹیوں نے ایوریسٹ پر جاکر ترنگا لہرایا ہے ، لیکن اس آزادی کے تیوہار کے موقع پر میں اس بات کو یاد کروں گا کہ ہمارے دور دراز کے جنگلوں میں جینے والے ننھے منے آدی واسی بچوں نے اس بار ایوریسٹ پر ترنگا جھنڈا لہراکر ، ترنگے جھنڈے کی شان میں مزید اضافہ کیا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ابھی ابھی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اجلاس مکمل ہوئے ہیں اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایوان کی کارروائی بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ چلی اور ایک طرح سے پارلیمنٹ کا یہ اجلاس پوری طرح سے سماجی انصاف کے لئے وقف تھا۔ دلت ہوں ، مصیبت زدہ ہوں، استحصال زدہ ہوں ، محروم ہوں، خواتین ہوں ان سب کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہماری پارلیمنٹ نے حساسیت اور بیدار مغزی کے ساتھ سماجی انصاف کو مزید طاقتور بنایا۔
او بی سی سی کمیشن کو آئینی درجہ دینے کا مطالبہ کئی برسوں سے ہورہا تھا۔ اس بار پارلیمنٹ نے اس کمیشن کو آئینی درجہ دے کر کے ، اسے ایک آئینی شکل دے کر کے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کی کوشش کی ہے۔
ہم آج اس وقت آزاد ی کا تیوہار منارہے ہیں جب ہمارے ملک میں ایسی خبروں نے نیا شعور پیدا کیا ہے۔ ہر بھارتی شہری دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ رہتا ہو ، آج اس بات پر فخر کررہا ہے کہ ہندوستان نے دنیا کی چھٹی بڑی معیشت کی حیثیت حاصل کرلی ہے، ایسے مثبت ماحول میں مثبت واقعات کے سلسلے کے درمیان آج ہم آزادی کا تیوہار منا رہےہی۔ملک کو آزادی دلانے کے لئے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی قیادت میں اپنے نصب العین کے لئے وفد لوگوں نےاپنی زندگی کھپادی، جوانی جیلوں میں گزار دی۔ کئی انقلابی عظیم شخصیات نےپھانسی کےتختے پر لٹک کر ملک کی آزادی کے لئے پھانسی کےپھندے کو چوم لیا۔ میں آج اپنے ہم وطنو کی طرف سے آزادی کےان بہادر مجاہدوں کو دل کی گہرائیوں سے سرنگوں ہوکر سلام کرتا ہوں۔ جس ترنگے پرچم کی آن بان شان ہمیں جینے ۔جوجھنے اور مرنے مٹنے کا حوصلہ دیتی ہے، اس ترنگے کی شان کے لئے ملک کی فوج کے جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دے دیتے ہیں۔ ہمارے نیم فوجی دستے پوری زندگی کھپا دیتے ہیں۔ ہماری پولیس فورس کے جوان عام انسانی زندگی کی حفاظت کےلئے رات دن ملک کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔
میں فوج کےسبھی جوانوں کو، نیم فوجی دستوں کے جوانوں کو، پولیس کے جوانوں کو، ان کی عظیم خدمات کےلئے، ان کی قربانی اور ایثار، ا ن کی شجاعت و جواں مردی کے لئے آج ترنگے جھنڈے کی شہادت میں لال قلعے کی فصیل سے سو سو بار سلام کرتا ہوں اور بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ان دنوں ملک کے مختلف گوشوں سے اچھی خبریں آرہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سیلاب کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ زبردست بارش اور سیلاب کی وجہ سے جن کنبوں کو اپنے عزیزوں سے محروم ہونا پڑا ہے، جنہیں مصیبتیں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں، ان سب کےتئیں ملک پوری طاقت کے ساتھ ا ن کی مدد کےلئے کھڑا ہے اور جنہوں نے اپنوں کو کھویا ہے، میں ان کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔میرے عزیز ہم وطنو، اگلی بیساکھی پر ہمارے جلیاں والا باغ قتل عام کے 100 برس پورے ہورہے ہیں۔ ملک کے عام لوگوں نے اپنے وطن کی آزادی کے لئے کس طرح اپنی جانوں کی بازی لگادی تھی اور ظلم کی کتنی سرحدیں پار کی تھیں۔ جلیاں والا باغ ہمارے ملک کے ان بہادروں کی قربانی اور ایثار کا ہمیں حوصلہ دیتا ہے۔ میں ان سبھی بہادروں کو دل کی گہرائیوں سے بصد احترام سر جھکاکر سلام کرتا ہوں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ہمیں یہ آزادی ایسے ہی آسانی سےحاصل نہیں ہوئی ہے۔ آنجہانی باپو کی قیادت میں متعدد عظیم شخصیات نے، متعدد بہادروں نے انقلابیوں کی قیادت میں لاتعداد نوجوانوں نے، ستیہ گرہ کی دنیا میں رہنے والوں نے، اپنی جوانی جیلوں میں کاٹ دی، ملک کو آزادی دلائی لیکن آزادی کی اس جد وجہد میں خوابوں کو بھی سنجویا گیا ہے ۔ ہندوستان کے عظیم الشان تصور کو بھی اپنے دل میں نقش کیا ہے اور آزادی کے متعدد برسوں پہلے تامل ناڈو کے قومی شاعر سبرامنیم بھارتی نے اپنے خوابوں کو الفاظ میں پرویا تھا اور انہوں نے کہا تھا’’ایلاروم امرنلائی ایڈومنن مروئی انڈیا الیگیری کو الیکم انڈیا اولاگیری کُو الیکم‘‘(एलारूम अमरनिलीइ एडुमनन मुरूयई India अलिगिरी कु अलिकुम India ऊलागिरी कु अलिकुम )
اور انہوں نے لکھا تھا۔
ایلاروم امر نیلئی ایڈومنن مرایئی
انڈیا اَلی گیری کو اَلی کم
انڈیا کولی گیری کو اَلی کم
یعنی کہ بھارت ، انہوں نے آزادی کے بعد کیا خواب دیکھا تھا؟ سبرامنیم بھارتی نے کہا تھا کہ بھارت پوری دنیا کو ہر طرح کی رکاوٹوں سے آزادی حاصل کرنے کا راستہ دکھائے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو! ان عظیم شخصیات کے خوابوں کی تکمیل کے لئے ، ان مجاہدین آزادی کی امیدوں کو پورا کرنے کے لئے ، ملک کے عوام کی امیدوں اور توقعات کو مکمل کرنے کے لئے آزادی کے بعد بابا صاحب امبیڈکر جی کی قیادت میں بھارت نے ایک جامع آئین کی تشکیل کی۔ یہ ہمارا جامع آئین ایک نئے بھارت کی تعمیر کا عہد لے کر آیا ہے۔ ہمارے لئے کچھ ذمہ داریاں لے کر آیا ہے، ہمارے خوابوں کی تکمیل کے لئے سماج کے ہر طبقہ کو ،بھارت کے سبھی لوگوں کو یکساں طور پر آگے لے جانے کے لئے مواقع ملیں، اس کے لئے ہمارا آئین ہماری رہنمائی کرتا رہا ہے۔
میرے پیارے بھائیوں بہنو! ہمارا آئین کہتا ہے کہ بھارت کے ترنگے جھنڈے سے ہمیں ترغیب ملتی ہے۔ غریبوں کو انصاف ملے، سبھی کو ، عوام الناس کو آگے بڑھنے کا موقع ملے، ہمارے نچلے متوسط طبقہ، متوسط طبقہ، اعلیٰ متوسط طبقے کے لوگوں کو آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، ان کی ترقی میں کوئی سرکاری رکاوٹ نہ آئے، سماجی نظام ان کے خوابوں کو دبوچ نہ لے، ان کو زیادہ سے زیادہ موقع ملے، وہ جتنا آگے بڑھنا چاہئں اس کے لئے ہم ایک ماحول بنائیں۔
ہمارے بزرگ ہوں، ہمارے دویانگ ہوں، ہماری خواتین ہوں، ہمارے دلت، متاثرین، ہمارے جنگلوں میں زندگی گزارنے والے قبائلی بھائی بہن ہوں، ہر کسی کو ان کی امیدوں اور توقعات کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ ایک خود کفیل بھارت ہو، ایک باصلاحیت بھارت ہو، ترقی کی مسلسل رفتار کو بنائے رکھنے والا، مسلسل نئی اونچائیوں کو عبور کرنے والا بھارت ہو، دنیا میں بھارت کی شبیہ ہو، اور اتنا ہی نہیں ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہندوستان کا بول بالا بھی ہو، ایسا ہندوستان بنانے کے لئے ہم چاہتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! میں نے پہلے بھی ٹیم انڈیا کا تصور آپ کے سامنے رکھا ہے۔ جب سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی شراکت داری ہوتی ہے، ہر کوئی ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے ساتھ جڑتا ہے۔ سوا سو کروڑ خواب ، سواسو کروڑ عزم ، سواسو کروڑ لیاقت، جب طے شدہ ہدف کو حاصل کرنے کے لئے صحیح سمت میں چل پڑتے ہیں، تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟
میرے پیارے بھائیوں بہنو! میں آج بڑے احترام کے ساتھ یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ 2014 میں اس ملک کے سواسو کروڑ باشندے صرف حکومت بناکر رکے نہیں تھے۔ 2014 میں ملک کے باشندے صرف حکومت بناکر کے رکے نہیں تھے بلکہ وہ ملک بنانے کے لئے بھی مصروف عمل ہیں، مصروف عمل بھی تھے اور مصروف عمل رہیں گے بھی۔ میں سمجھتاہوں کہ یہی تو ہمارے ملک کی طاقت ہے۔ سواسو کروڑ ملک کے باشندے اور ہندوستان کے 6 لاکھ سے زائد گاؤں آج ملک کی طاقت ہیں۔ آج جناب اروند کا یوم پیدائش ہے۔ جناب اروند نے بہت صحیح بات کہی تھی۔ جناب اروند نے کہا تھا قوم کیا ہے، ہماری مادر وطن کیا ہے، یہ کوئی زمین کا ٹکڑا نہیں ہے، نہ ہی یہ صرف خطاب ہے، نہ ہی یہ کوئی کورا تصور ہے۔
قوم ایک وسیع قوت ہے جو بے شمارچھوٹی چھوٹی اکائیوں کی متحدتوانائی کو مجسم شکل دیتی ہے ۔ جناب اروند کا یہ تصور ہی آج ملک کے ہرشہری کو ، ملک کو ، آگے لے جانے میں ،جوڑرہاہے ۔لیکن ہم آگے جارہے ہیں تووہ پتہ تب تک نہیں چلتاہے جب تک ہم کہاں سے چلے تھے ، اس پراگرنظرنہ ڈالیں ، کہاں سے ہم نے سفرکا آغاز کیاتھا ، اگراس کی جانب نہیں دیکھیں گے توکہاں گئے ہیں ، کتنا گئے ہیں ، اس کا شاید اندازہ نہیں آئیگا ۔ اوراس لئے 2013میں ہماراملک جس رفتارسے چل رہاتھا ، زندگی کے ہرشعبے میں 2013کی رفتارتھی ۔ اس 2013کی رفتارکو اگرہم بنیاد تسلیم کرکے سوچیں اورگذشتہ چارسال میں جوکام ہوئے ہیں ، ان کاموں کا اگرہم محاسبہ کریں توآپ کو حیرت ہوگی کہ ملک کی رفتارکیاہے ، گتی کیاہے ، ترقی کیسے پروان چڑھ رہی ہے ۔
بیت الخلاؤں کو ہی لے لیں ، اگربیت الخلأ بنانے میں 2013کی جو رفتارتھی ، اسی رفتارسے چلتے توشاید کتنے دہے گذرجاتے ۔ بیت الخلأ صد فی صد پوراکرنے میں ۔
اگرہم گاؤں میں بجلی پہنچانے کی بات کو کہیں ، اگر2013کی بنیاد پرسوچیں توگاؤں میں بجلی پہنچانے کے لئے شاید ایک دودہائیاں اورلگ جاتیں ۔ اگرہم 2013کی رفتارسے دیکھیں تو ایل پی جی گیس کنکشن غریب کو ، غریب ماں کو دھوئیں سے مبرابنانے والاچولھا ، اگر2013کی رفتارسے چلے ہوتے تواس کام کو پوراکرنے میں شاید 100سال بھی کم پڑجاتے ، اگر2013کی رفتارسے چلے ہوتے تو ، اگرہم 13کی رفتارسے آپٹیکل فائیبرنیٹ ورک کرتے رہتے ، آپٹیکل فائیبرلگانے کا کام کرتے تو شاید پیڑھیاں نکل جاتیں ، اس رفتارسے آپٹیکل فائیبرہندوستان کے گاوؤں میں پہنچانے کے لئے۔ یہ رفتار، یہ چال ، یہ ترقی یہ ہدف اس کے حصول کے لئے ہم آگے بڑھیں گے ۔
بھائیو۔بہنو،
ملک کی توقعات بہت ہیں ، ملک کی ضروریات بہت ہیں ، اور ان کی تکمیل کرنا ، حکومت ہو، سماج ہو، مرکزی حکومت ہو ، ریاستی حکومت ہو، سب کومل جل کرکوشش کرنا، یہ لگاتارضروری ہوتاہے اوراسی کا نتیجہ ہے ، آج ملک میں کیسا بدلاؤ آیاہے ۔ ملک وہی ہے ، زمین وہی ہے ، ہوائیں وہی ہیں ، آسمان وہی ہے ، سمند روہی ہے ، سرکاری دفتروہی ہیں ، فائلیں وہی ہیں ، فیصلہ لینے کے عمل کے ذمہ داران بھی وہی ہیں لیکن چار سال میں ملک تبدیلی محسوس کررہا ہے ۔ ملک ایک نئی بیداری ، نئی امنگ ، نئے عزم ، نئی کامیابی ، نئی کوشش اس کوآگے بڑھا رہا ہے اور تبھی تو آج ملک دوگنی شاہراہیں بنارہا ہے تو ملک چار گنا گاوؤں میں نئے گھر بنارہا ہے۔ اناج کی پیداوار کررہا ہے۔ ملک آج ریکارڈ ایک اور موبائل فون کی مینو فیکچرنگ بھی کررہا ہے ۔ ملک میں آج ریکارڈ ٹریکٹر فروخت ہورہے ہیں۔ گاؤں کا کسان ٹریکٹر ، ریکارڈ ٹریکٹر کی خریداری ہورہی ہے تو دوسری جانب ملک میں آج آزاد ی کے بعد سب سے زیادہ ہوائی جہاز خریدنے کا بھی کام ہورہا ہے۔ ملک آج اسکولوں میں ٹوائلیٹ بنانے پر بھی کام کررہا ہے تو ملک آج نئے آئی آئی ایم ، نئے آئی آئی ٹی ، نئے آئی آئی ایم ایس قائم کررہا ہے۔ ملک آج چھوٹے چھوٹے مقامات پر نئے ہنر مندی کے فروغ کےمشن کو آگے بڑھاکر کے نئے نئے مرکز کھول رہا ہے تو ہمارے ٹائر-2 ، ٹائر -3 شہروں میں اسٹارٹ اپ کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے، بہار آئی ہوئی ہے ۔
بھائیو بہنو! آج گاؤں گاؤں تک ڈیجیٹل انڈیا کولے کر آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ایک حساس حکومت ایک طرف تو ڈیجیٹل ہندستان بنانے کے لئے کام کررہی ہے دوسری طرف میرے جو دیویانگ بھائی بہنیں ہیں، ان کے لئے ‘عام اشارے ’ ان کی لغات تیار کرنے کا کام بھی اتنی ہی لگن کے ساتھ آج ہمارا ملک کررہا ہے۔
ہمارے ملک کا کسان ان دنوں جدیدیت سائنسی رجحان کی طرف جانے کے لئے مائیکرو آبپاشی ، ڈرپ آبپاشی، اسپرنکل اس پر کام کررہا ہے۔ تو دوسری طرف 99 پرانے رکے ہوئے آبپاشی کے بڑے بڑے پروجیکٹ بھی چلا رہا ہے۔ ہمارے ملک کی فوج جہاں کہیں قدرتی آفات ہو پہنچ جاتی ہے۔ مصیبت میں پھنسے ہوئے انسان کی حفاظت کے لئے ہماری فوج رحم ، محبت، ہمدردی کے ساتھ پہنچ جاتی ہے۔ لیکن وہی فوج جب عزم لے کر چل پڑتی ہے تو سرجیکل اسٹرائیک کرکے دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے آجاتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کی ترقی کا کینوس کتنا بڑا ہے ۔ ایک کنارہ دیکھئے ، دوسرا کنارہ دیکھئے ، ملک پورے بڑے کینوس پر آج نئی امنگ اور نئے جوش کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
میں گجرات سے آیا ہوں۔ گجرات میں ایک کہاوت ہے ، ‘نشان چوک معاف لیکن نہیں معاف نیچو نشان’ ہدف بڑے ہونے چاہئیں ، خواب بڑے ہونے چاہئیں، اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے، جواب دینا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اہداف بڑے نہیں ہوں گے ، اہداف دور کے نہیں ہوں گے،پھر فیصلے بھی نہیں ہوتے ہیں، ترقی کا سفر بھی اٹک جاتا ہے اور اس لئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بڑے اہداف لے کر کے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کی سمت میں کوشش کریں اور جب اہداف ڈھل مل ہوتے ہیںِ ، حوصلے بلند نہیں ہوتے ہیں، تو سماج ، زندگی کے ضروری فیصلے بھی برسوں تک اٹکے پڑے رہتے ہیں ۔ ایم ایس پی دیکھ لیجئے اس ملک کے ماہرین اقتصادیات مطالبہ کررہے تھے ، کسان تنظیمیں مطالبہ کررہی تھیں، کسان مطالبہ کررہا تھا ، سیاسی پارٹیاں مطالبہ کررہی تھیں کہ کسانوں کو لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی ملنا چاہئے۔ برسوں سے بات چل رہی تھی ، فائلیں چلتی تھیں ، اٹکتی تھیں ، لٹکتی تھیں، پھٹکتی تھیں، لیکن ہم نے فیصلہ لیا ۔ ہمت کے ساتھ فیصلہ لیا کہ میرے ملک کے کسانوں کو لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی دیا جائے گا۔
جی ایس ٹی ، کون متفق نہیں تھا، سب چاہتے تھے جی ایس ٹی، لیکن فیصلے نہیں ہوپاتے تھے، فیصلے لینے میں میرا اپنا فائدہ ، نقصان ، سیاست، الیکشن ، انہیں چیزوں کا دباؤ رہتا تھا ۔ آج میرے ملک کے چھوٹے چھوٹے تاجروں کی مدد سے ا ن کے کھلے پن کی وجہ سے نئے پن کو تسلیم کرنے کے ان کے مزاج کی وجہ سے آج ملک نے جی ایس ٹی نافذ کردیا۔ تاجروں میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوا۔ میں ملک کی تاجر برادری ، چھوٹی چھوٹی صنعت کرنے والی برادری نے جی ایس ٹی کے ساتھ شروع میں دشواریاں آنے کے باوجود بھی اس کو گلے سے لگایا، تسلیم کیا ۔ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ہمارے ملک کے بینکنگ کے شعبے کو طاقتو ر بنانے کے لئے قرض کی ادائیگی میں معذوری کا قانون ہو، دیوالیہ پن کا قانون ہو ، کس نے روکا تھا پہلے؟ اس کے لئے طاقت لگتی ہے، دم لگتا ہے،اعتماد لگتا ہے اور عوام کے تئیں مکمل عہد بستگی ہوتی ہے، تب فیصلہ ہوتا ہے۔ بے نامی جائداد کا قانون کیوں نہیں لگتا تھا، جب حوصلے بلند ہوتے ہیں ، تو ملک کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے، تو بے نامی جائداد کے قانون بھی نافذ ہوتے ہیں۔ میرے ملک کی فوج کے جوان تین تین، چار چار دہائیوں سے ایک عہدہ ایک پنشن کے لئے مانگ کررہے تھے۔ وہ ڈسپلن میں رہنے کی وجہ سے مظاہرے نہیں کرتے تھے، لیکن آواز سنارہے تھے، کوئی نہیں سنتا تھا۔ کسی کو تو فیصلہ کرنا تھا، آپ نے ہمیں اس فیصلے کی ذمہ داری دی، ہم نے اسے پورا کردیا۔
میرے پیارے بھائیو بہنو! ہم سخت فیصلے لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ، کیونکہ ملک کا مفاد ہمارے لئے سب سے اوپر ہے۔ پارٹی مفاد کے لئے کام کرنے والے لوگ ہم نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ہم عہد کرکے چل پڑے ہیں۔
میرے پیارے بھائیو بہنو! ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ آج عالمی معیشت کے اس دور میں پوری دنیا بھارت کی ہر بات کو دیکھ رہی ہے، امید اور توقع کے ساتھ دیکھ رہی ہے، اور اس لئے بھارت کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ، بڑے چیزوں پر بھی دنیا بڑی گہرائی کے ساتھ نظر رکھتی ہے۔ آپ یاد کریئے کہ 2014 سے پہلے دنیا کی معروف ادارے ، دنیا کے معزز ماہرین معاشیات ، دنیا میں جن کی بات کو سند سمجھا جاتا ہے، ایسے لوگ کبھی ہمارے ملک کے لئے کیا کہا کرتے تھے، وہ بھی ایک زمانہ تھا جب دنیا سے آواز اٹھتی تھی، دانشوروں کی طرف سے آواز اٹھتی تھی کہ ہندوستان کی معیشت خطرات سے پُر ہے۔ ان کو رِسک دکھائی دیتا تھا، لیکن آج وہی لوگ ، وہی ادارے ، وہی لوگ بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اصلاحات کی رفتار (ریفارم مومنٹم) ، بنیادی (فنڈامنٹل) کو مضبوطی دے رہی ہیں، کیسی تبدیلی آئی ہے؟ ایک وقت تھا ، گھر میں یا گھر کے باہر دنیا ایک ہی کہتی ہے لال فیتہ شاہی (ریڈ ٹیپ) کی بات کرتی تھی، لیکن آج سرخ قالین (ریڈ کارپیٹ) کی بات ہورہی ہے۔ کاروبار میں آسانی کے زمرے میں ہم سو تک پہنچ گئے۔ آج پوری دنیا اسے فخر سے دیکھتا ہے۔ وہ بھی دن تھا جب دنیا کا ماننا تھا کہ بھارت یعنی پالیسی انجماد ، بھارت یعنی اصلاحات میں تاخیر، وہ بات ہم سنتے تھے، آج بھی اخبار نکال کر دیکھو گے تو دکھائی دے گا، لیکن آج دنیا میں ایک بات آرہی ہے کہ اصلاحات ، کارکردگی، تبدیلی (ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم) ، ایک کے بعد ایک پالیسی سے متعلق معینہ مدت میں فیصلوں کا سلسلہ۔ وہ بھی ایک وقت جب دنیا بھارت کو پانچ کمزوروں میں گنتی تھی۔ دنیا کو تشویش تھی کہ دنیا کو ڈبونے میں بھارت بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ کمزور پانچ (فریجائل-5) میں ہماری گنتی ہورہی تھی لیکن آج دنیا کہہ رہی ہے کہ بھارت ملٹی ٹریلین ڈالر کے انوسٹمنٹ (سرمایہ کاری) کا ڈسٹی نیشن (مقام) بن گیا ہے، وہیں سے آواز بدل گئی ہے۔
میرے پیارے بھائیو اور بہنو! دنیا بھارت کے ساتھ جڑنے پر بات کرتے وقت ، ہمارے بنیادی ڈھانچے پر تبادلہ خیال کرتے وقت، کبھی بجلی جانے سے بلیک آؤٹ ہوگیا، ان دونوں کو یاد کرتی تھی ، کبھی رکاوٹوں (بائل نیک) کی بات کرتی تھی، لیکن وہی دنیا ، وہی لوگ ، وہی دنیا کی رہنمائی کرنے والے لوگ، ان دنوں کہہ رہے ہیں کہ سویا ہوا ہاتھی، بھارت کے لئے کہہ رہے ہیں، سویا ہوا ہاتھی اب جاگ چکا ہے، چل پڑا ہے، سوئے ہوئے ہاتھی نے اپنی دوڑ شروع کردی ہے اور دنیا کے ماہرین معاشیات کہہ رہے ہیں، بین الاقوامی ادارے کہہ رہے ہیں ، آنے والی تین دہائیوں تک، 30 سال تک دنیا کی معیشت کی قوت کو بھارت رفتار دینے والا ہے۔ بھارت دنیا کی ترقی کا ایک نیا وسیلہ بننے والا ہے۔ ایسا اعتماد آج بھارت کے لئے پیدا ہوا ہے۔
آج بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھارت کی ساکھ بڑھی ہے۔پالیسی سازی کرنے والی جن چھوٹی موٹی تنظیموں میں آج ہندوستان کو جگہ ملی ہے، وہاں ہندوستان کی بات سنی جارہی ہے۔ ہندوستان اسے سمت دینےاور قیادت کرنے میں اپنا اہم رول ادا کررہا ہے۔دنیا کے پلیٹ فارموں پر ہم نے اپنی آواز بلند کی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! کئی برسوں سے جن اداروں میں ہمیں رکنیت کا انتظار تھا ، آج ملک کو دنیا کے بے شمار اداروں میں جگہ ملی ہے۔ آج بھارت ماحولیات کے تئیں فکر مند، گلوبل وارمنگ کے تئیں پریشانی کا اظہار کرنے والے لوگوں کے لئے بھارت امید کی ایک کرن بنا ہے۔ آج بھارت انٹرنیشنل سولر الائنس کی پوری دنیا میں قیادت کررہا ہے۔آج کوئی بھی ہندوستانی دنیا میں کہیں پر بھی قدم رکھتا ہے تو دنیا کا ہر ملک اس کا خیر مقدم کرنے کے لئے مشتاق رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک آجاتی ہے ہندوستان کو دیکھ کر ۔ ہندوستان کے پاسپورٹ کی طاقت بڑھ گئی ہے اور ہر ہندوستانی میں خود اعتمادی سے ، ایک نئی توانائی، نئی امنگ کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم پیدا ہوا ہے۔
میرے ہم وطنو!دنیا میں کہیں پر بھی اگر میرا ہندوستانی بحران میں ہے تو آج اسے بھروسہ ہے کہ میرا ملک میرے پیچھے کھڑا ہوگا، میرا ملک بحران کے وقت میں میرے ساتھ آجائے گا اور تاریخ گواہ ہے گزشتہ دنوں کے متعدد واقعات کا۔ جس کی وجوہات ہم دیکھ رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! دنیا میں بھی ہندوستان کی طرف دیکھنے کا نظریہ جیسے بدلا ہے ویسے ہی ہندوستان میں جب کبھی شمال مشرق کی بات ہوتی تھی تو کیا خبریں آتی تھیں، وہ خبریں جن سے ایسا لگتا تھا کہ بہتر ہو اگر ایسی خبریں نہ آئیں۔ لیکن آج میرے بھائیو اور بہنو شمال مشرق ایک طرح سے ان خبروں کو لے کر آرہا ہے جو ملک کو بھی ترغیب دے رہی ہیں۔ آج کھیل کے میدان میں دیکھئے ہمارے شمال مشرق کی دمک نظر آرہی ہے۔
میرے پیارے بھائیو بہنو!آج شمال مشرق کی خبرآرہی ہے کہ آخری گاؤں میں بجلی پہنچ گئی ہے اور رات بھر گاؤں ناچتا رہا۔آج شمال مشرق سے یہ خبریں آرہی ہیں۔ آج شمال مشرق میں شاہراہیں، ریلویز، ایئرویز، واٹرویز اور انفارمیشن ویز(I-وے) اس کی خبریں آرہی ہیں۔ آج بجلی کی ٹرانسمیشن لائن لگانے کا بہت تیزی سے کام شمال مشرق میں چل رہا ہے۔ آج ہمارے شمال مشرق کے نوجوان وہاں بی پی او کھول رہے ہیں۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے نئے بن رہے ہیں۔ آج ہمارا شمال مشرق نامیاتی زراعت کا مرکز بن رہا ہے۔ آج ہمارا شمال مشرق ، اسپورٹس یونیورسٹی کی میزبانی کررہا ہے۔
بھائیو بہنو! ایک وقت تھا جب شمال مشرق کو لگتا تھا کہ دلّی بہت دور ہے۔ ہم نے چار سال کے اندر اندر دلّی کو شمال مشرق کے دروازے پر لا کھڑا کیا ہے۔
بھائیو بہنو!آج ہمارے ملک میں 65 فیصد آبادی 35 سال کی عمر کی ہے۔ہم ملک کے جوانوں پر فخر کررہے ہیں۔ ملک کی نوجوان نسل پر فخر کررہے ہیں۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں نے آج اقتصادیات کے سارے پیمانوں کو تبدیل کردیا ہے۔ ترقی کے سارے پیمانوں میں ایک نیا رنگ بھر دیاہے۔ کبھی بڑے شہروں کی بات ہواکرتی تھی۔ آج ہمارا ملک ٹائر- 2، ٹائر-3 سٹی کی باتیں کررہا ہے، کبھی گاؤں کے اندر جاکر جدید زراعت میں لگے ہوئے نوجوانوں کی بات کررہا ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں نے روزگار کی نوعیت کو پوری طرح بدل دیا ہے۔ اسٹارٹ اَپ ہو، بی پی او ہو، ای-کامرس ہو، موبلٹی کا شعبہ ہو، ایسے نئے شعبوں کو آج میرے ملک کا نوجوان اپنے سینے سے لگاکر نئی بلندیوں پر لے جانے میں مصروف ہے۔
میرے پیارے بھائیو بہنو، 13 کروڑ کو مُدرا لون، بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ 13 کروڑ اور اس میں بھی چار کروڑ وہ لوگ ہیں، وہ نوجوان ہیں، جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کہیں سے لون لیا ہے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر کےاپنے روزگار کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بدلے ہوئے ماحول کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ آج میرے ہندوستان کے گاوؤں میں ڈیجیٹل انڈیا کے خواب کو آگے لے جانے کے لئے، ہندوستان کے آدھے سے زیادہ تین لاکھ گاوؤں میں کامن سروس سینٹر میرے ملک کے نوجوان بیٹے بیٹیاں چلا رہے ہیں اور ہر گاؤں کو،ہر شہری کو پلک جھپکتےہی دنیا کے ساتھ جوڑنے کے انفارمیشن ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ میرے بھائیو بہنو آج میرے ملک میں انفراسٹرکچر نے نئے روپ لے لئے ہیں۔ ریل کی رفتار ہو، روڈ کی رفتارہو، آئی وے ہو، ہائی وے ہو،نئے ہوائی اڈے ہوں، ایک طرح سے ہمارا ملک بہت تیز رفتاری کے آگے بڑھ رہا ہے۔
میرے بھائیو بہنو ہمارے ملک کے سائنس دانوں نے بھی ملک کا نام روشن کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، خواہ دنیا کے حوالے سے ہو یا ہندوستان کی ضرورت کے حوالے سے، کون سا ہندوستانی یہ دیکھ کر فخر نہیں کے کرے گا کہ ہمارے ملک کے سائنس دانوں نے ایک ساتھ 100 سے زائد سیٹلائٹ خلا میں بھیج کر پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔یہ اہلیت ہمارے سائنس دانوں کی ہے۔ ہمارے سائنس دانوں کی جواں مردی تھی کہ منگل یان کی کامیابی اور وہ بھی پہلی ہی کوشش میں کامیابی۔مریخ کے مدار میں ہمارا داخلہ، وہاں تک پہنچنا یہ اپنے آپ میں ہمارے سائنسدانوں کی کامیابی تھی۔ آئندہ کچھ ہی دنوں میں ہمارے ان سائنسدانوں کی بنیاد، تصور اور سوچ کے نتیجے میں ناوک کو آنے والے کچھ ہی دنوں میں ہم ’’لانچ‘‘ کرنے جارہےہیں۔ ملک کے ماہی گیروں کو، عام شہریوں کو ناوک کے ذریعہ سمتوں کی رہنمائی کا بہت بڑا کام ہم پورا کرنے جارہے ہیں۔ میرے پیارے ہم وطنو، آج اس لال قلعے کی فصیل سے میں اپنے ہم وطنو کو ایک خوشخبری سنانا چاہتا ہوں، ہمارا ملک خلا کی دنیا میں مسلسل ترقی کرتا آرہا ہے۔ لیکن ہم نے ایک خواب دیکھا ہے، ہمارے سائنسدانوں نے خواب دیکھا ہے۔ ہمارے ملک نے عہد کیا ہے کہ 2022 میں جب آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر اس یا اس سے پہلے آزادی کے 75 سال منائیں گے تب اس وقت مادر وطن کا کوئی بھی بیٹا یا بیٹی ہاتھ میں ترنگا پرچم لیکر خلا کا سفر کرسکیں گے۔ آزادی کے 75 سال سے پورے ہونے سے پہلے ہمیں اس خواب کو پور اکرنا ہے۔منگل یان کی کامیابی سے لیکر اب تک ہندوستان کے سائنس دانوں نے اپنی طاقت کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں اب ہم سیٹلائٹ پر انسان کو لیکر خلا میں سفر کرسکیں گے اور یہ سیٹلائٹ جب خلا میں جائے گا ہندوستانی شہری کو لیکر خلا میں جائے گا، اس وقت ہندوستانی سائنس دانوں کے ذریعہ دیکھا ہوا ہندوستانی کی جواں مردی کا خواب پورا ہوگا، اس وقت ہم دنیا کے چوتھے ایسا ملک بن جائیں گے جس نے انسان کو لیکر خلا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی کامیابی حاصل کی ہے۔
بھائیو بہنو میں ملک کے سائنس دانوں کو ملک کے ٹیکنیشینس کو میں اس عظیم کامیابی کے لئے دل کی گہرائیوں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔بھائیو بہنو ، ہمارا ملک آج اناج کے ذخائر سے پُر ہے۔ اناج کی اس قدر پیداوار کےلئے میں ملک کے کسانوں کو، کھیت مزدوروں کو، زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے ہمارے کسانوں کو ملک میں زرعی انقلاب کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کےلئے دل سے بہت بہت مبارکبا دیتا ہوں۔
لیکن بھائیو- بہنو! اب وقت بدل چکا ہے۔ ہمارے کسان کو بھی، ہمارے زرعی بازار کو بھی عالمی چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ عالمی بازار کا سامنا کرنا ہوتاہے۔آبادی بڑھتی جاتی ہو، زمین کم ہوتی جارہی ہو، تب ہماری زراعت کو جدیدبنانا، سائنسی بنانا، ٹیکنالوجی کی بنیاد پر آگے لے جانا یہ وقت کی مانگ ہے۔ اس لئے آج ہم زراعت کے شعبوں میں جدت پیدا کرنے کے لئے ، تبدیلی لانے کے لئے پوری توجہ دے رہے ہیں۔
ہم نے سپنا دیکھا ہے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا۔ آزادی کے 75 سال ہوں، کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کرنے کا سپنا دیکھاہے۔ کئی لوگوں کو اس پر شک وشبہات ہوتے ہیں، یہ بات بے حد فطری ہے۔ جن کو شبہات ہوتے ہیں، یہ فطری ہے، لیکن ہم ہدف کو لے کر چل رہے ہیں اور ہم مکھن پر لکیر بنانے کی عادت والے نہیں ہیں، ہم پتھر پر لکیر بنانے کے مزاج والے لوگ ہیں۔مکھن پر لکیر تو کوئی بھی بنا لیتا ہے، پتھر پر لکیر بنانے کے لئے پسینہ بہانا پڑتا ہے، پالیسی بنانی پڑتی ہے، جی جان سے جٹنا پڑتا ہے۔ اس لئے آزادی کے 75 سال مکمل ہوں گے تب تک ملک کے کسانوں کو ساتھ لے کر زراعت میں جدت لاکر زراعت کے فلک کو چوڑا کرکے ہم آج چلنا چاہتے ہیں۔ بیج سے لے کر بازار تک ہم ویلیو ایڈیشن کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جدت طرازی کرنا چاہتے ہیں اور کئی نئی فصلیں بھی ا ب ریکارڈ پیداوار کرنے سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ اپنے آپ میں پہلی بار ہم ملک میں زرعی برآمداتی پالیسی کے سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، تاکہ ہم اور ہمارے ملک کا کسان بھی عالمی بازار کے اندر مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہے۔
آج نیا زرعی انقلاب ، نامیاتی کاشتکاری، بلو ریوولیشن، سوئیٹ ریوولیشن،سولر فارمنگ، یہ نئے دائرے کھل چکے ہیں۔ اس کو لے کر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ملک دنیا میں مچھلی کی پیداوار کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور دیکھتےہی دیکھتے اول مقام پر بھی پہنچنے والا ہے۔ آج شہد کا ایکسپورٹ دگنا ہوگیا ہے۔آج گنا کسانوں کے لئے خوشی کی بات ہوگی کہ ہمارے ایتھنول کی پیداوار تین گنا ہوگئی ہے۔یعنی ایک طرح سے دیہی معیشت میں جتنی اہمیت زراعت کا ہے، اتنی ہی اور کاروباروں کا بھی ہے، اس لئے ہم خواتین خود امدادی گروپ کے ذریعے اربوں کھربوں روپیوں کے ذریعے گاؤں کے جو وسائل ہیں، گاؤں کی جو طاقت ہے اس کو بھی ہم آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اس سمت میں ہم پوری کوشش کررہے ہیں۔
کھادی- باپو کا نام اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ آزادی سے لے کر اب تک جتنی کھادی فروخت کرنے کی روایت تھی، میں آج نہایت ہی سادگی سے کہنا چاہتاہوں، کھادی کی فروخت پہلے سے دوگنی ہوگئ ہے۔ غریب لوگوں کے ہاتھ میں روزی روٹی پہنچی ہے۔
میرے بھائیو- بہنو!سولر فارمنگ، میرے ملک کا کسان اب سولر فارمنگ کی جانب بھی زور دینے لگا ہے۔ کاشت کاری کے علاوہ وہ سولر فارمنگ سے بھی بجلی فروخت کرکے بھی کمائی کرسکتا ہے۔ ہمارا ہتھ کرگھا چلانے والا شخص ہمارے ہینڈلوم کی دنیا کے لوگ یہ بھی روزی روٹی کمانے لگے ہیں۔
میرے پیارے بھائیو- بہنو! ہمارے ملک میں اقتصادی ترقی ہو، معاشی بڑھوتری ہو، لیکن ان سب کے باوجود بھی انسان کا وقار ، یہ سب سے اعلیٰ درجے پر ہوتاہے۔ انسان کے وقار کے بغیر ملک متوازن طریقے سے نہ جی سکتا ہے، نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی بڑھ سکتا ہے۔ اس لیے انسان کا وقار ، انسان کی عزت، ہمیں ان یوجناؤں کو لے کر آگے بڑھنا چاہئے تاکہ وہ عزت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں، فخر سے زندگی جی سکیں۔ پالیساں ایسی ہوں ، نیت ایسی ہو کہ اس کے سبب عام آدمی، غریب سے غریب آدمی بھی اپنے آپ کو برابری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع دیکھتاہو۔
اور اس لئے اُجولا یوجنا ہو، ہم نے غریب کے گھر میں گی پہنچانے کا کام کیا ہے۔ سوبھاگیہ یوجنا ہو، غریب کے گھر میں بجلی پہنچانے کا کام کیا ہے۔ شرمیؤ جیتے یعنی محنت کی جیت پر زور دیتے ہوئے ہم آگے بڑھنے کی سمت میں کام کررہے ہیں۔
کل ہی ہم نے عزت مآب صدر جمہوریہ کا خطاب سنا۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے گرام سوراج ابھیان کا ذکر کیا۔ جب بھی حکومت کی باتیں آتی ہیں تو کہتے ہیں کہ پالیسیاں تو بنتی ہیں لیکن وہ پالیسیاں دور دراز رہ علاقوں میں رہ رہے لوگوں تک نہیں پہنچیں ۔ کل صدر جمہوریہ نے بڑے اچھے طریقے سے ذکر کیا کہ کس طرح سے توقعاتی اضلاع کے 65 ہزار گاؤں میں دلی سے چلے ہوئے منصوبے کو غریب کے گھرتک ، پسماندہ گاؤں تک کیسے پہنچایا گیا ہے۔
پیارے ہم وطنو 2014 میں اسی لال قلعے کی فصیل سے جب میں نے سووچھتا کی بات کی تھی تو کچھ لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا تھا، تمسخر کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ارے حکومت کے پاس بہت سارے کام ہیں، یہ سووچھتا جیسے کام میں اپنی توانائی کیوں خرچ کررہی ہے۔ لیکن بھائیو بہنو پچھلے دنوں ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں سووچھتا ابھیان کی وجہ سے تین لاکھ بچے مرنے سے بچ گئے ہیں۔ کون ہندوستانی ہوگا جس کو سووچھتا میں شراکت دار بن کرکے ان تین لاکھ بچوں کی زندگی بچانے کا ثواب پانے کا موقع نہ ملا ہو۔ غریب کے تین لاکھ بچوں کی زندگی بچانا کتنی بڑی انسانیت کا کام ہے۔ عالمی ادارے اس کا اعتراف کررہے ہیں۔
بھائیو بہنو، اگلا سال مہاتما گاندھی کے 150 ویں یوم پیدائش کا سال ہے۔ لائق احترام باپو نے اپنی زندگی میں آزادی سے بھی زیادہ اہمیت سووچھتا کو بھی دی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ آزادی ملی ستیہ گرہیوں سے، سووچھتا ملے گی سووچھ گرہیوں سے۔ گاندھی جی نے ستیہ گرہی تیار کئے تھے اور گاندھی جی کی ترغیب نے سووچھ گرہی تیار کئے ہیں اور آنے والا 150 واں یوم پیدائش جب ہم منائیں گے تب یہ ملک قابل احترام باپو کو سووچھ بھارت کی شکل میں یہ ہمارے سیکڑوں سووچھ گرہی لائق احترام باپو کو کاریانجلی نذر کریں گے اور ایک طرح سے جن خوابوں کو لیکر ہم چلے ہیں، ان خوابوں کو ہم پورا کریں گے۔
میرے بھائیو بہنو، یہ صحیح ہے کہ سووچھتا نے تین لاکھ لوگوں کی زندگی بچائی ہے۔ لیکن متوسط طبقے کا کتنا ہی خوشحال کنبہ کیوں ہو، اچھی خاصی آمدنی رکھنے والا شخص کیوں نہ ہو، غریب کیوں نہ ہو ایک بار گھر میں بیماری آجائے تو صرف شخص نہیں بلکہ پورا کنبہ ہی بیمار ہوجاتا ہے۔ کبھی نسل در نسل بیماری کے چکر میں پھنس جاتا ہے۔
ملک کے غریب سے غریب شخص کو، عام آدمی کو علاج کی سہولت ملے، سنگین بیماریوں کے لئے اور بڑے اسپتالوں میں عام آدمی کو بھی علاج کی سہولت ملے، مفت میں ملے اور اس کے لئے حکومت ہند نے پردھان منتری جن آروگیہ ابھیان شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پردھان منتری جن آروگیہ ابھیان کے تحت آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت اس ملک کے دس کروڑ کنبے، یہ ابتدا ہے، آنے والے دنوں میں نچلے متوسط طبقے، متوسط طبقے اعلی متوسط طبقے کو بھی اس کا فائدہ ملنے والا ہے۔ اس لئے دس کروڑ کنبوں کو یعنی تقریباً 50 کروڑ شہری، ہر کنبے کو پانچ لاکھ روپے سالانہ ہیلتھ ایشورینس دینے کا منصوبہ ہے۔ یہ ہم اس ملک کو دینے والے ہیں، یہ ٹکنالوجی والانظام ہے،شفافیت پر زور ہو، کسی عام آدمی کو یہ موقع حاصل کرنے میں پریشانی نہ ہو، رکاوٹ نہ ہو، اس میں ٹکنالوجی انٹروینشن بہت اہم ہے۔ اس کے لئے ٹکنالوجی کے ٹول بنے ہیں۔
آج 15 اگست سے آنے والے چار، پانچ، چھ ہفتوں میں ملک کے الگ الگ گوشے میں اس ٹکنالوجی کی جانچ کا عمل شروع ہورہا ہے اور فل پروف بنانے کی سمت میں کوشش چل رہی ہے اور پھر اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے 25 ستمبر پنڈت دین دیال اپادھیائے کے یوم پیدائش پر پورےملک میں یہ پردھان منتری جن آروگیہ ابھیان لانچ کردیا جائے گااور اس کا نتیجہ یہ ہونے والا ہے کہ ملک کے غریب شخص کو اب بیماری کی مصیبت سے نبرد آزما نہیں ہونا پڑے گا۔ اس کو ساہوکار سے پیسہ سود پر نہیں لینا پڑے گا۔ اس کا کنبہ تبا ہ نہیں ہوجائےگا اور ملک میں متوسط طبقے کے خاندانوں کے لئے، معالجے کے شعبے میں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ٹائر -2 ، ٹائر -3 شہروں میں نئےاسپتال بنیں گے۔ بہت بڑی تعدا د میں میڈیکل اسٹاف لگے گا ۔ روزگار کے بہت سار ے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
بھائیو بہنو، کوئی غریب ، غریبی میں جینا نہیں چاہتا ہے، کوئی غریب غریبی میں مرنا نہیں چاہتا ہے۔ کوئی غریب اپنے بچوں کو وراثت میں غریبی دے کر جانا نہیں چاہتا۔ وہ چھٹ پٹا رہا ہوتا ہے کہ زندگی بھر غریبی سے باہر نکلنےکے لئے اور ا س بحران سے باہر آنے کے لئے غریب کو مضبوط بنانا یہی اس کا علاج ہے ، یہی تدبیر ہے۔
ہم نے گزشتہ چار برسوں میں غریب کو بااختیار بنانے پر زور دیا ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ غریب بااختیا ر بنے اور حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارےنے بہت اچھی رپورٹ جاری کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ دو برس میں بھارت میں 5 کروڑ غریب، خط افلاس سے باہر آگئے ہیں۔
بھائی بہنو، جب غریب کو بااختیاربنانے کا کام کرتے ہیں اور جب میں آیوشمان بھارت کی بات کرتا تھا ، دس کروڑ کنبوں یعنی پچاس کروڑ لوگوں کی ، تو بہت کم لوگوں کو اندازہ ہوگاکہ اتنی بڑی اسکیم ہے ۔ اگر میں امریکہ ، کناڈا اور میکسیکو کی آبادی ملا لوں تو تقریباً اتنے مستفدین آیوشمان بھارت اسکیم کے ہیں۔ اگر میں پورے یورپ کی آبادی لے لوں، تقریباً اتنی ہی آبادی ہندستان میں اس آیوشمان بھارت کے مسفتدین کی بننے والی ہے
بھائی بہنو، غریب کو بااختیار بنانے کے لئے ہم نے متعدد اسکیمیں بنائی ہیں۔ اسکیمیں تو بنتی ہیں لیکن بچولیئے ، کٹکی کمپنی اس میں سے ملائی کھالیتے ہیں۔ غریب کو حق ملتا نہیں۔ خزانے سے پیسہ جاتا ہے ، اسکیمیں کاغذ پر نظر آتی ہیں ، ملک لٹتا چلا جاتا ہے۔ سرکاریں آنکھیں مونڈ کے بیٹھ نہیں سکتیں اور میں تو قطعی نہیں بیٹھ سکتا ۔ اور اسی لئے بھائیوں بہنو، ہمارے نظام میں آئی خرابیوں کو دور کرکے ملک کے عام انسانوں کے دل میں اعتماد پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی ریاستیں ہوں ، مرکز ہو، بلدیاتی ادارے ہوں، ہم سب کو مل کر کرنی ہو گی اور اسے آگے بڑھانا ہوگا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جب سے ہم اس صفائی مہم میں لگے ہیں ، سوراخ بند کرنے میں لگے ہیں ، کوئی اجولا یوجنا کا استفادہ کنندہ ہوتا تھا ، کوئی اسکالر شپ کا استفادہ کنندہ ہوتا تھا ، کوئی پنشن کا استفاد ہ کنندہ ہوتا تھا، فوائد حاصل ہوتے تھے لیکن چھ کروڑ لوگ ایسے تھے جو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے جن کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن ان کے نام سے پیسے جارہے تھے۔ ان چھ کروڑ ناموں کو نکالنا کتنا بڑا اور مشکل کام ہوگا۔ کتنے لوگوں کو پریشانی ہوئی ہوگی ،جوانسان پیدا نہ ہوا ، جو انسان دھرتی پر نہیں ہے ، ایسے ہی فرضی نام لکھ کر کے روپے مار لئے جاتے تھے۔اس سرکار نے اسے روکا ہے۔ بدعنوانی، کالا دھن، یہ سارے کاروبار روکنے کی سمت میں ہم نے قدم اٹھائے ہیں۔
بھائیو -بہنو! اور اس کا نتیجہ کیا آیا ہے؟ تقریباً 90 ہرار کروڑ روپے ، یہ چھوٹی رقم نہیں ہے ، 90 ہزار کروڑ روپئے جو غلط لوگوں کے ہاتھ میں غلط طریقے سے، غلط کارناموں کی وجہ سے چلے جاتے تھے، وہ آج ملک کی تجوری میں بچے ہیں ، جو ملک کے عام انسان کی بھلائی کے لئے کام آرہے ہیں۔
بھائیو- بہنو! یہ ہوتا کیوں ہے؟ یہ ملک ، غریبوں کے وقار کے لئے کام کرنے والا ملک ہے۔ ہمارے ملک کا غریب باعزت طریقے سے زندگی گزارے، اس کے لئے کام کرنے والا ہے، لیکن یہ بچولئے کیا کرتے تھے؟ آپ کو پتہ ہوگا کہ بازار میں گیہوں کی قیمت 24-25 روپے ہے، جبکہ راشن کارڈ پر سرکار وہ گیہوں 24-25 روپے میں خرید کر صرف دو روپے میں غریب تک پہنچاتی ہے۔ چاول کی بازار میں قیمت 30-32 روپے ہے لیکن غریب کو چاول ملے، اس لئے سرکار 30-32 روپے میں خرید کر تین روپے میں راشن کارڈ والے غریب تک پہنچاتی ہے۔ یعنی کہ ایک کلو گیہوں کوئی چوری کرلے، غلط فرضی نام سے ، تو اس کو تو 20-25 روپے ایسے ہی مل جاتے ہیں۔ ایک کلو چاول مار لیں تو اس کو 30-35 روپے ایسے ہی مل جاتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ فرضی ناموں کا کاروبار چلتا تھا اور جب غریب راشن کارڈ لے کر دکان پر جاتا تھا، وہ کہتا تھا راشن ختم ہوگیا، راشن وہاں سے نکل کر دوسری دوکان پر چلا جاتا تھا اور وہ دو روپے سے ملنے والا راشن ،میرے غریب کو 20 روپے ، 25 روپے میں خریدنا پڑتا تھا، اس کا حق چھین لیا جاتا تھا، بھائیو بہنوں۔ اور اس لئے اس فرضی کاروبار کواب بند کیا ہے اور اسے روکا ہے۔
بھائیو -بہنو! ہمارے ملک کے ایک ایک غریبوں کو دو روپے میں ، تین روپے میں کھانا ملتا ہے، سرکار اس کے لئے بڑا معاشی خرچ کررہی ہے۔ لیکن اس کا سہرا سرکار کو نہیں جاتا ہے اور میں آج خاص طور سے میرے ملک کے ایماندار ٹیکس دہندگان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج جب دوپہر کو آپ کھانا کھاتے ہوں، پل بھر کے لئے کنبے کے ساتھ بیٹھ کر کے میری بات کو یاد کرنا، میں آج ایماندار ٹیکس دہندگان کے دل کو چھونا چاہتا ہوں۔ ان کے من مندر میں نمن کرنے میں جارہا ہوں۔ میرے ہم وطنو! جو ایماندار ٹیکس دہندہ ہے، جو ٹیکس دیتا ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو ایماندار شخص ٹیکس دیتا ہے، ان پیسوں سے یہ اسکیمیں چلتی ہیں۔ ان منصوبوں کاثواب اگر کسی کو ملتا ہے تو سرکار کو نہیں ، میرے ایماندار ٹیکس دہندگان کو ملتا ہے، ٹیکس پیئر کو ملتا ہے اور اس لئے جب آپ کھانا کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں تو آپ یقین کیجئے ، آپ کے ٹیکس دینے کے ایماندارانہ عمل کا نتیجہ ہے کہ جب آپ کھانا کھارہے ہیں، اسی وقت تین غریب خاندان بھی کھانا کھارہے ہیں، جس کا ثواب ایماندار ٹیکس دینے والے کو ملتا ہے اور غریب کا پیٹ بھرتا ہے۔
دوستو! ملک میں ٹیکس نہ دینے کا ماحول بنایا جارہا ہے لیکن جب ٹیکس دہندگان کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے ٹیکس سے ، بھلے ہی وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہو، ایئر کنڈیشن کمرے میں بیٹھا ہو، لیکن اس کے ٹیکس سے اسی وقت تین غریب کنبے اپنا پیٹ بھررہے ہیں۔ اس سے بڑا زندگی کا اطمینان کیا ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ دل کے لئے ثواب کیا ہوسکتا ہے۔
بھائیو-بہنو! آج ملک ایمانداری کا اُتسو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اور ایمانداری کا اُتسو لے کر چل رہا ہے۔ ملک میں 2013 تک ، یعنی پچھلے 70 سال کی ہماری سرگرمیوں کا نتیجہ تھا کہ ملک میں ڈائریکٹ ٹیکس دینے والے چار کروڑ لوگ تھے، لیکن بھائیو-بہنو! آج یہ تعداد قریب قریب دوگنی ہوکر پونے سات کروڑ ہوگئی ہے۔کہاں تین ، ساڑھے تین ، پونے چار کروڑ اور کہاں پونے سات کروڑ، یہ ایمانداری کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ملک ایمانداری کی طرف چل پڑا ہے۔ اس کی مثال ہے۔ 70 سال میں ہمارے ملک میں جتنے باالواسطہ ٹیکس میں صنعت کار جڑے تھے وہ 70 سال میں 70 لاکھ کی تعداد تک پہنچے ہیں۔ 70 سال میں 70 لاکھ لیکن صرف جی ایس ٹی آنے کے بعد پچھلے ایک سال میں یہ 70 لاکھ کی تعداد ایک کروڑ 16 لاکھ تک پہنچ گئی۔ بھائیو اور بہنو! میرے ملک کا ہر شخص آج ایمانداری کے جشن میں آگے آرہا ہے۔ جو بھی آگے رہے ہیں میں ان کو سلام کرتا ہوں۔ جو آگے آنا چاہتے ہیں میں ان کو یقین دلانا چاہتا ہوں ، اب ملک پریشانیوں سے آزاد ، فخر کے ساتھ ٹیکس دہندہ کی زندگی بنانے کیلئے پابند عہد ہے۔ میں ٹیکس دہندگان کو یقین دلانا چاہتا ہوں آپ ملک کو بنانے میں تعاون کررہے ہیں۔ آپ کی پریشانیاں ہماری پریشانیاں ہیں ، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، کیوں کہ آپ کے تعاون سے ہمیں ملک کو آگے بڑھانا ہے اور اس لئے بھائیو - بہنو، ہم کالا دھن بدعنوانی کو معاف نہیں کریں گے۔ کتنی ہی آفتیں کیوں نہ آئیں، اس راستے کو تو میں چھوڑنے والا نہیں ہوں میرے ہم وطنو، کیوں کہ ملک کو دیمک کی طرح انہیں بیماریوں نے تباہ کرکے رکھا ہوا ہے۔ اور اس لئے ہم نے ، آپ نے دیکھا ہوگا ، اب دلی کے گلیاروں میں اقتدار کے دلاّل نظر نہیں آتے۔ اگر دلّی میں کہیں گونج سنائی دیتی ہے تو پاور کی گونج سنائی دیتی ہے۔
میرے پیارے بھائیو -بہنو، یہ وقت بدل چکا ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کے کہتے تھے ارے سرکار وہ پالیسی بدل دوں گا، ڈھیکنا کردوں گا، فلانا کردوں گا، ان کی ساری دوکانیں بند ہوگئی ہیں، دروازے بند ہوگئے ہیں۔
بھائیو – بہنو، کنبہ پروری کو ہم نے ختم کردیا ہے۔ میرے پرائے کی روایتوں کو ہم نے ختم کردیا ہے۔ رشوت لینے والوں پر سخت کارروائی ہورہی ہے۔ تقریباً تین لاکھ یہ تعداد کم نہیں ہے، تین لاکھ مشتبہ کمپنیوں پر تالے لگ چکے ہیں، ان کے ڈائرکٹروں پر پابندیاں لگادی گئی ہیں بھائیو – بہنو۔ اور آج ہم نے طریقہ عمل کو شفاف بنانے کیلئے آن لائن طریقہ کار شروع کیا ہے۔ ہم نے آئی ٹی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ ہے کہ آج ماحولیات ۔ ایک وقت تھا کہ ماحولیات کی منظوری یعنی بدعنوانی کے پہاڑ پر چڑھتے جانا تب جاکر کے ملتی تھی۔ بھائیو- بہنو ہم نے اس کو شفاف بنادیا ہے، آن لائن کردیا ہے، کوئی بھی شخص اس کو دیکھ سکتا ہے اور ہندوستان کے وسائل کا صحیح استعمال ہو اس پر ہم کام کرسکتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، آج ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج سپریم کورٹ میں تین خاتون جج بیٹھی ہوئی ہیں۔ کوئی بھی ہندوستان کی خاتون اس پر فخر کرسکتی ہے کہ ہندوستان کے سپریم کورٹ میں آج تین خاتون عزت مآب جج ہمارے ملک کو انصاف فراہم کرارہی ہیں۔ بھائیو ۔ بہنو، مجھے فخر ہے کہ آزادی کے بعد یہ پہلی کابینہ ہے جس میں سب سے زیادہ خواتین کو جگہ ملی ہے۔ بھائیو- بہنو، میں آج اس اسٹیج سے میری کچھ بیٹیاں ہیں، میری بہادر بیٹیوں کو ایک خوشخبری دینا چاہتا ہوں، ہندوستانی مسلح افواج میں شارٹ سروس کمیشن کے ذریعے خاتون افسروں کو ان کے ہم منصب مرد افسروں کی طرح سلیکشن کے شفاف عمل کے ذریعے مستقل کمیشن کا آج میں اعلان کرتا ہوں ، جو ہماری لاکھوں بیٹیاں آج یونیفارم کی زندگی جی رہی ہیں ، ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہیں، ان کے لئے آج میں یہ تحفہ دے رہا ہوں، لال قلعے کی فصیل سے دے رہا ہوں، ملک کی خواتین اور طاقتور ہندوستان کی تعمیر میں کندھے سے کندھے ملاکرکے چل رہی ہیں۔ ہماری ماں بہنوں کا فخر، ان کاتعاون ، ان کی صلاحیت آج ملک محسوس کررہا ہے۔ کھیت سے لے کر کھیل کے میدان تک ہماری خواتین ہندوستان کا ترنگا جھنڈا بلند کررہی ہیں ۔ سرپنج سے لے کر پارلیمنٹ تک ہمارے ملک کی خواتین ملک کی ترقی کے لئے اپنا تعاون دے رہی ہیں۔ اسکول سے لے کر فوج تک ہمارے ملک کی خواتین آج کندھے سے کندھا ملاکر آگے بڑھ رہی ہیں لیکن جب اتنی بڑی تعداد میں ہماری خواتین اپنے کارناموں سے آگے بڑھ رہی ہوں تو کبھی کبھی وکرتیاں بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ خواتین کی قوت کو چیلنج دینے والی راکششی قوتیں بھی کبھی کبھی ابھر کر آجاتی ہیں۔ عصمت دری تکلیف دہ ہے لیکن عصمت دری کی شکار اس بیٹی کو جتنی اذیت ہوتی ہے اس سے لاکھوں گنا تکلیف اہل وطن کو ، ملک کو ، عوام کو ، ہر ایک کو ہونی چاہئے۔
بھائیو- بہنو ، اس راکششی ذہنیت سے سماج کو آزاد کرانا ہوگا۔ ملک کو آزاد کرانا ہوگا ، قانون اپنا کام کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش میں پانچ دن کے اندر کٹنی میں عصمت دری کرنے والوں کا مقدمہ پانچ دن چلا اور پانچ دن میں پھانسی کی سز ا سنادی گئی ۔ اسی طرح راجستھان میں بھی کچھ ہی دنوں میں عصمت دری کرنے والوں کے مقدمات چلے اور ان کو پھانسی کی سزا سنائی دی گئی ہے۔ آج ان پھانسیوں کی خبریں جتنی زیادہ مشتہر ہوں گی ، ان راکششی ذہنیت کے لوگوں میں خوف پیدا ہوگا۔ ہمیں ان خبروں کو مشتہر کرنا چاہئے ۔ اب پھانسی پر لٹکنا یقینی ہورہا ہے۔ یہ بات اب لوگوں کو معلوم ہوجانی چاہئے اور راکششی رجحان اور ذہنیت کے لوگوں کو خوف ہونا چاہئے۔ ہمیں اس ذہنیت پر چوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس فکر پر چوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کجروی پر چوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھائیو بہنو ، یہی سوچ ، یہی کجروی ناقابل معافی جرائم کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے لئے قانون کی حکمرانی سپریم ہے۔ اس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کا حق نہیں دیا جاسکتا ہے اور خاندانوں میں بھی ، اسکولوں میں کالجوں میں، ذرائع ابلاغ میں ہمارے بچوں کی ہماری نئی نسل پھول جیسے نادان بچوں کی پرورش ایسے ہو تاکہ اس کی رگوں میں تہذیب ہو۔ خواتین کا احترام کرنے کا احساس اس کے دلوں دماغ میں ہو ، خواتین کا احترام زندگی جینے کا صحیح طریقہ ہوتا ہے۔ خواتین کا وقار جینے کا صحیح راستہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں اب خاندانوں میں بھی یہ سنسکار دینے ہوں گے ۔
بھائیو بہنو، میری مسلم خواتین اور بہنو ں کو میں آج اس لا ل قلعہ سے یقین دلانا چاہتا ہوں ۔ تین طلاق کے غلط چلن نے ہمارے ملک کی مسلم بیٹیوں کی زندگی کو تباہ کرکے رکھا ہوا ہے اور جن کو طلاق نہیں ملی ہے وہ بھی اس دباؤ میں گذارا کررہی ہیں۔ اس اجلاس میں بھی ہم نے پارلیمنٹ میں قانون لاکر کے ہماری ان خواتین کو غلط رواجوں سے آزادی دلانے کا بیڑا اٹھایا تھا لیکن اب بھی کچھ لوگ ہیں جو اسے منظور نہیں ہونے دیتے ہیں۔ لیکن میں میرے ملک کی ان مظلوم ماوؤں اور بہنوں کو ، مسلم بیٹیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ انصاف کے لئے ، ان کے حق کے لئے کام کرنے میں کچھ بھی کمی نہیں رکھوں گا اور میں آپ کی امیدوں اور امنگوں کی تکمیل کرکے رہوں گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، فوج ہو ، نیم فوجی دستے ہوں ، ہمارے پولیس دستے ہوں، ہماری خفیہ ایجنسی ہو ، ان کے اتحاد میں ملک میں داخلی سلامتی کو ایک بہت بڑی طاقت دی ہے ۔ داخلی سلامتی کا احساس پیدا کیا ہے۔ ایک امن کے ماحول کو ، ان کی اس قربانی ، ضبط و تحمل اور سخت محنت کے سبب ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔
بھائیو۔ بہنو، آئے دن شمال مشرق سے پرتشدد واقعات کی خبریں آتی تھیں، علیحدگی پسند ی کی خبریں آتی تھیں، بم، بندوق اور پستول کے واقعات سنائی دیتے تھے۔ لیکن آج ایک آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ جو تین تین، چار چار دہائی سے نافذ تھا، آج مجھے خوشی ہے کہ ہمارے سکیورٹی دستوں کی کوششوں کی وجہ سے، ریاستی حکومتوں کی سرگرمی کی وجہ سے ، مرکز اور ریاست کے ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے، عام آدمی کو جوڑنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج کئی سالوں کے بعد دو ریاستیں تریپورہ اور میگھالیہ پوری طرح آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ سے مبرا ہوگئی ہیں۔
اروناچل پردیش کے بھی کئی اضلاع اس سے مبرا ہوگئے ہیں۔ گنے چنے ضلعوں میں یہ صورتحال ابھی باقی ہے۔بائیں بازو کی انتہاپسندی، ماؤ واد ملک کو خون سے آلودہ کررہا ہے۔آئے دن تشدد کی واردات انجام دینا، بھاگ جانا، جنگلوں میں چھپ جانا لیکن مسلسل ہمارے سکیورٹی دستوں کی کوششوں کی وجہ سے، ترقی کے نئے نئے منصوبوں کی وجہ سے ، عام آدمی کو جوڑنے کی کوشش کی وجہ سے، بائیں بازو کی جو انتہاپسندی 126 اضلاع میں موت کے سائے میں جینے کے لئے مجبور کررہی تھی، آج وہ کم ہوکر تقریباً 90 اضلاع تک محدود ہوگئی ہے اور وہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
بھائیو۔ بہنو، جموں و کشمیر، اٹل بہاری واجپئی جی نے ہمیں راستہ دکھایا ہے اور وہی راستہ صحیح ہے۔اسی راستے پر ہم چلنا چاہتے ہیں۔ واجپئی جی نے کہا تھا ، انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت ۔ان تین بنیادی موضوعات کو لیکر ہم کشمیر کی ترقی کے لئے، خواہ لداخ ہو، خواہ جموں ہو یا سری نگروادی ہو، متوازن ترقی ہو، یکساں ترقی ہو، وہاں کے عام آدمی کی توقعات پوری ہوں، بنیادی ڈھانچے کو مضبوطی ملے اور ساتھ ساتھ ہر کس و ناکس کو گلے کر چلے، اسی جذبے کے ساتھ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم گولی اور گالی کے راستے پر نہیں، گلے لگاکر اپنے کشمیر کے حب الوطنی سے جینے والوں کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
بھائیو۔ بہنو، سنچائی کے منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور ایمس کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔ ڈل جھیل کی تعمیر نو اور احیاء کا کام بھی ہم چلا رہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جموں کشمیر کے گاؤں کا ہر انسان مجھ سے ایک سال سے مطالبہ کررہا تھا، وہاں کے پنچ مجھ سے سینکڑوں کی تعداد میں آکر ملتے تھے اور وہ مطالبہ کررہے تھے جموں کشمیر میں ہمیں پنچایتوں کے مقامی بلدیات کے الیکشن دیجئے۔ کسی نہ کسی وجہ سے وہ رکا ہوا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ آنے والے کچھ ہی مہینوں میں جموں کشمیر میں گاؤں کے لوگوں کو اپنا حق جتانے کا موقع ملے گا۔ اپنا خود کا نظام قائم کرنے کا موقع ملے گا۔ اب تو بھارتی حکومت سے اتنی بڑی مقدار میں وہ پیسے براہ راست گاؤں کے پاس جاتے ہیں تو گاؤں کو آگے بڑھانے کے لئے وہاں کے منتخب پنچ کے پاس طاقت آئے گی۔ اس لئے مستقبل قریب میں پنچایتوں کے الیکشن ہوں، مقامی بلدیاتی انتخابات ہوں، اسی سمت میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
بھائیو۔ بہنو، ہمیں ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ ہمارا منتر رہا ہے، سب کا ساتھ سب کا وکاس، کوئی بھید بھاؤ نہیں، کوئی میرا تیرا نہیں، کوئی اپنا پرایا نہیں، کوئی بھائی بھتیجہ واد نہیں، سب کا ساتھ یعنی سب کا ساتھ۔ اور اس لئے ہم ایسے ہدف طے کرکے چلتے ہیں اور آج میں پھر ایک بار اس ترنگے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوکر لال قلعے کی فصیل سے سینکڑوں ہم وطنو کے روبروان عزائم کو دہرانا چاہتا ہوں، ان عزائم کی تصدیق کرنا چاہتا ہوں جس کے لئے ہم اپنے آپ کو کھپا دینے کے لئے تیار ہیں۔
ہر بھارتی کے پاس اپنا گھر ہو، ہاؤسنگ فار آل۔ ہر گھر میں بجلی کنکشن ہو، پاور فار آل۔ ہر بھارتی کو دھوئیں سے نجات ملے رسوئی میں اور اس لئے کُوکنگ گیس فار آل۔ ہر بھارتی کو ضرورت کے مطابق پانی ملے اور اس لئے ، واٹر فار آل۔ ہر بھارتی کو بیت الخلا ملےاور اس لئے سینیٹیشن فار آل ، ہر ہندوستانی کو ہنر مندی ملے اور اس لئے اِسکل فار آل ، ہر ہندوستانی اچھی اور سستی صحت خدمات ملیں، اس لئے ہیلتھ فار آل ، ہر ہندوستانی تحفظ ملے ، تحفظ کا بیمہ ، سکیورٹی کور ملے اور اس لئے انشورنس فار آل ، ہر ہندوستانی کو انٹرنیٹ خدمات ملیں اور اسلئے کنکٹی ویٹی فار آل، اس منتر کو لے کر ہم ملک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
میرے پیارے بھائیو-بہنو! لوگ میرے لئے بھی کئی باتیں کرتے ہیں، لیکن جو کچھ بھی کہا جاتا ہو، میں آج کھلے عام کچھ چیزوں کو تسلیم کرنا چاہتا ہوں کہ میں بے صبر ہوں، کیونکہ کئی ملک ہم سے آگے نکل چکے ہیں، میں بے صبر ہوں، میرے ملک کو ان سب ملکوں سے بھی آگے لے جانے کے لئے بے چین ہوں، میں بے چین ہوں میرے پیارے ہم وطنو! میں بے صبر بھی ہوں، میں بے چین بھی ہوں۔ میں بے چین ہوں ہمارے ملک کے بچوں کے فروغ میں، تغذیہ کی کمی ایک بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، ایک بہت بڑا بوٹل نیک بنا ہوا ہے، مجھے میرے ملک کو تغذیہ کی کمی سے پاک کرانا ہے اس لئے میں بے چین ہوں۔ میرے ہم وطنو! میں بے چین ہوں تاکہ غریب تک ، مناسب صحت خدمات میسر ہوں، اس کے لئے میں بے چین ہوں تاکہ میرے ملک کا عام شخص بھی بیماری سے لڑ سکے، بھڑ سکے۔
بھائیو-بہنو! میں بے چین بھی ہوں، بے صبر بھی ہوں۔ میں بے صبر ہوں تاکہ اپنے شہری کو معیاری زندگی اور آسان زندگی جینے کا موقع فراہم ہو، اس میں بھی سدھار آئے۔
میرے پیارے ہم وطنو! میں بے چین بھی ہوں، بے صبر ہوں میں ،کیونکہ چوتھا صنعتی انقلاب ہے جو علم کی بنیاد پر چلنے والا چوتھا صنعتی انقلاب ہے، اس چوتھے صنعتی انقلاب کی قیادت آئی ٹی جس کی انگلیوں پر ہے، میر ا ملک اس کی رہنمائی کرے، اس کے لئے میں بے چین ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو! میں کچھ کرنے کے لئے بے چین ہوں ، کیونکہ چاہتاہوں کہ ملک اپنی صلاحیت اور وسائل کا پورا پورا فائدہ اٹھائے اور دنیا میں فخر کے ساتھ ہم آگے بڑھیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! جو ہم آج ہیں، کل اس سے بھی آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ٹھہراؤ منظور نہیں ہے، ہمیں رکنا منظور نہیں ہے اور جھکنا تو ہماری فطرت میں نہیں ہے۔ یہ ملک نہ رُکے گا، نہ جھکے گا، یہ ملک نہ تھکے گا، ہمیں نئی بلندیوں پر آگے چلنا ہے، روز افزوں ترقی کرتے ہوئے چلنا ہے۔
بھائیو-بہنو! وید سے حال تک دنیا کی قدیم ترین وراثت سے مالا مال ہیں۔ ہم پر اس وراثت کا آشیرواد ہے۔ اس وراثت کی بدولت ہم میں خود اعتمادی ہے، اس کو لے کر ہم مستقبل میں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور میرے پیارے ہم وطنو! ہم صرف مستقبل دیکھنے تک رہنا نہیں چاہتے ہیں لیکن مستقبل کے اس عروج پر بھی پہنچنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کے عروج کا خواب لے کر ہم چلنا چاہتے ہیں اور اس لئے میرے پیارے ہم وطنو! میں آپ کو ایک نئی امید، ایک نئی اُمنگ، ایک نیا اعتماد دلاتا ہوں، ملک اسی سے چلتا ہے، دیش اسی سے بدلتا ہے اور اس لئے میرے پیارے ہم وطنو!
اپنے من میں ایک لکش لئے
اپنے من میں ایک لکش لئے
منزل اپنی پرتیکش لئے
اپنے من میں ایک لکش لئے
منزل اپنی پرتیکش لئے ہم توڑ رہے ہیں زنجیریں
ہم توڑ رہے ہیں زنجیریں،
ہم بدل رہے ہیں تصویریں،
یہ نو یُگ ہے، یہ نو یُگ ہے
یہ نو بھارت ہے، یہ نو یُگ ہے،
یہ نو بھارت ہے،
‘‘خود لکھیں گے اپنی تقدیر، ہم بدل رہے ہیں تصویر،
خود لکھیں گے اپنی تقدیر، یہ نو یُگ ہے، نو بھارت ہے،
ہم نکل پڑے ہیں، ہم نکل پڑے ہیں پرن کرکے،
ہم نکل پڑے ہیں پرن کرکے، اپنا تن من ارپن کرکے،
اپنا تن من ارپن کرکے، ضد ہے، ضد ہے، ضد ہے،
ایک سوریہ اُگانا ہے، ضد ہے ایک سوریہ اُگانا ہے،
امبر سے اونچا جانا ہے، امبر سے اونچا جانا ہے،
ایک بھارت نیا بنانا ہے، ایک بھارت نیا بنانا ہے۔’’
میرے پیارے ہم وطنو، پھر ایک بار آزادی کے اس مقدس تہوار پر آپ کے لئے بہت بہت نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے آئیے جئے ہند کے منتر کے ساتھ اونچی آواز میں میرے ساتھ بولیں گے،
جئے ہند، جئے ہند، جئے ہند، جئے ہند، بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے، وندے ماترم ، وندے ماترم ،وندے ماترم ، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( م ن ۔م ع۔و۔ م م۔ ن ا۔ س ش۔ ع آ۔ ا گ۔ ع ن۔ ن ا۔ ج ۔ ن ع۔ ق ف۔ (
U. No. 4289