independenceday-2016

Press Information Bureau

Government of India

Prime Minister's Office

15 اگست 2017 کو، 71 ویں یوم آزادی کے موقع پر، لال قلعہ کی فصیل  سے وزیراعظم کے  خطاب کا متن

Posted On :15, August 2017 11:37 IST

 

 

نئی دہلی۔15؍اگست۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 آزادی کے مقدس  تیوہار کے موقع پر ملک کےباشندوں کو بہت بہت نیک  خواہشات۔

آج پورا ملک آزادی کے تیوہار کےساتھ ساتھ جنم اشٹمی کا تیوہار بھی منارہا ہے۔ میں اپنے  سامنے دیکھ رہا ہوں، بہت بڑی  تعداد میں بچے بھی یہاں موجود ہیں۔ سدرشن-چكردھاری موہن سے لے کر کے چرخہ دھاری موہن تک ہمارے ثقافتی، تاریخی ورثے کے ہم سب دھنی ہیں۔ ملک کی آزادی کے لئے، ملک کی آن بان، شان کے لئے، ملک کے وقار کو  آگے  بڑھانے کے لئے جن جن لوگوں نے اپنا تعاون دیا ہے، اذیتیں جھیلی ہیں، قربانیاں دی ہیں ، ایثار اور قربانی پیش  کی ہیں، ایسی تمام شخصیات کو، ماؤں بہنوں کو میں لال قلعہ کی فصیل سے، سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی جانب سے، صدہا سلام پیش  کرتا ہوں، ان کا احترام کرتا ہوں۔

کبھی کبھار قدرتی آفات ہم لوگوں کے لئے بہت بڑا چیلنج بن جاتی ہیں۔ بہترین بارش ملک کے پھلنے پھولنے میں بہت بڑا تعاون دیتی ہے، لیکن آب وہوا کی تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ کبھی کبھی یہ قدرتی آفات مصیبت بھی  مول لیتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کے کئی حصوں میں اس قدرتی آفت کا بحران آیا۔ گزشتہ دنوں اسپتال میں ہمارے معصوم بچوں کی موت ہوئی۔ یہ ساری مصیبت کی گھڑی، دکھ کی گھڑی  میں سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی ہمدردیاں  سب کے ساتھ ہیں  اور میں اپنے ہم وطنوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسی مصیبت کے وقت مکمل حساسیت کے ساتھ عام لوگوں کی خوشحالی کیلئے ، سلامتی  کے لئے کچھ بھی کرنے میں ہم کمی نہیں رہنے دیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 یہ سال آزاد ہندوستان کے لئے ایک خصوصی سال ہے۔ ابھی پچھلے ہفتہ  ہی بھارت چھوڑو تحریک کی 75 ویں سالگرہ ہم نے منائی۔ یہ  ایسا  سال ہے جب چمپارن ستیہ گرہ کی صدی منا رہے ہیں۔ یہ سال ہے جو سابرمتی آشرم کی صدی کا بھی سال ہے۔ یہ سال ہے جب لوک مانیہ تلک جی، جنہوں نے کہا تھا  کہ ‘‘آزادی میرا پیدائشی حق ہے’’۔

اور جن چیتنا جگانے کے لئے عوامی گنیش اتسو کی روایت کو شروع کیا تھا، اس کا بھی 125 واں سال، ایک طرح سے تاریخ کی ایسی تواریخ ہےجس كی یاد، جس کا بودھ پاٹھ ہمیں ملک کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔  ہم آزادی کے 70 سال اور 2022  میں آزادی کے 75 سال، 1942 سے 1947 ملک نے اجتماعی طاقت کا مظاہرہ کیا۔  انگریزوں کی ناكوں میں دم لادیا اور پانچ سال کے اندر اندر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑ کرکے جانا پڑا۔

ہمیں... آزادی کے 75 سال کے پانچ سال، ابھی ہمارے پاس ہیں۔  ہماری اجتماعی عزم کی قوت، ہماری اجتماعی کڑی محنت ، ہمارا اجتماعی عہد بندگی،  عظیم محبان وطن کو یاد کرتے ہوئے جدو جہدکی انتہا، 2022 میں آزادی کے دیوانوں کے خوابوں کے مطابق بھارت بنانے کے لئے کام آ سکتی ہے اور اس لئے نئے ہندوستان(نیو انڈیا) کا  ایک عہد کر کے ہمیں ملک کو آگے بڑھانا ہے۔  سواسو کروڑ ہم وطنوں کے عزم  سے، سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی کڑی محنت سے، سواسو کروڑ ہم وطنوں کی ایثار و قربانی  سے اور ہم جانتے ہیں اتحاد کی طاقت كيا ہوتی ہے۔  بھگوان کرشن کتنے ہی زور آور تھے لیکن جب گوالے اپنی لکڑی لے کر کے کھڑے ہو گئے، ایک اجتماعی طاقت تھی، گووردھن پہاڑ اٹھا لیا تھا۔  پربھو رام چندر جی کولنکا جانا تھا وانر سینا کے چھوٹے چھوٹے لوگ لگ گئے، رام سیتو بن گیا، رام جی لنکا پہنچ گئے ۔موہن  داس كرم چند گاندھی تھے۔  ملک کے کروڑوں لوگ ہاتھ میں تكلی لے کر کے، روئی لے کر کے آزادی کے تانے  بانے بنتے تھے۔  ایک اجتماعیت کی  طاقت تھی کہ ملک آزاد ہو گیا۔  کوئی چھوٹا نہیں ہوتا، کوئی بڑا نہیں ہوتا،  ایک گلہری کی مثال ہمیں معلوم ہے، ایک گلہری بھی تبدیلی کے عمل کی حصے دار بنتی ہے، وہ کہانی ہم سب جانتے ہیں اور اس لئے سواسو کروڑ ہم وطنوں میں نہ کوئی چھوٹا ہے، نہ کوئی بڑا ہے۔  ہر کوئی اپنی جگہ سے 2022 کی آزادی کے بعد کے 75 سال کا ایک نیا عزم، ایک نیا انڈیا، نئی توانائی، کڑی  محنت، اجتماعی طاقت کے ذریعے ہم ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔’نیو انڈیا‘ جو محفوظ ہو، خوشحال ہو، طاقتور ہو، ’نیو انڈیا‘ جہاں ہر کسی کو یکساں مواقع دستیاب ہوں،‘نیو انڈیا’ جہاں جدید سائنس اور تکنیکی میدان میں بھارت کا دنیا میں دبدبہ ہو۔

جدو جہد آزادی ، ہم لوگوں کے جذبات سے زیادہ وابستہ ہے۔  ہم بخوبی جانتے ہیں كہ آزادی کی جب تحریک چل رہی تھی،  تب ایک استاد بھی اسکول میں تدریس کرتا تھا۔  ایک کسان کھیت میں کام کرتا تھا، ایک مزدور مزدوری کرتا تھا، لیکن جو بھی، جو کرتا تھا،  اس کے من  مندر میں اس کی جذبات کی دنیا میں یہ احساس تھا کہ میں جو کام کر رہا ہوں، ملک کی آزادی کے لئے کر رہا ہوں۔  یہ جذبہ یہ بہت بڑی اور اہم  طاقت ہوتا ہے۔  کنبے میں بھی کھانا روز پکتا ہے۔  پکوان سب طرح کے بنتے ہیں لیکن جو پکوان بھگوان کے سامنے بھوگ کے طور پر چڑھا دیئے جاتے ہیں تو پکوان پرساد بن جاتے ہیں۔

ہم محنت کرتے ہیں، لیکن ماں بھارتی کی شان کے لئے، عظمت کے لئے، ہم وطنوں کو غریبی سے آزاد کرانے کے لئے، سماجی تانے بانے کو صحیح طریقے سے بننے کے لئے، ہمارے ہر فرض کو قوم کے جذبے سے،حب الوطنی سے،قوم کو وقف کرتے ہوئے کرتے ہیں تو نتائج کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اس طرح ہم سب اس بات کو لے کر آگے چلیں۔

یہ سال 2018 کا، آنے والا 18، ایک جنوری، میں اسےمعمولی 1 جنوری نہیں مانتا۔ جن لوگوں نے 21 ویں صدی میں جنم لیا ہے ان کے لئے یہ سال اہم ہے۔ 21 ویں صدی میں پیدا ہوئے نوجوانوں کے لئے یہ سال ان کی زندگی کا فیصلہ کن سال ہے۔ وہ 18 سال کے جب جب ہوں گے، وہ 21 ویں صدی کے بھاگیہ-ودھاتا ہونے والے ہیں۔ 21 ویں صدی کی تقدیر یہ نوجوان بنائیں گے، جن کی پیدائش 21 ویں صدی میں ہوئی ہے اور اب 18 سال ہونے پر ہے۔ میں ان تمام نوجوانوں کا دل سے بہت بہت خیر مقدم کرتا ہوں، احترام کرتا ہوں اور ان کو سلام کرتا ہوں کہ آئیے، آپ اب 18 سال کی دہلیز پر آ کر کے کھڑے ہیں۔ ملک کی قسمت بنانے کا آپ کو موقع مل رہا ہے۔ آپ ملک کی ترقی کے سفر میں بہت تیزی سے حصے دار بنیں، ملک آپ کو دعوت دیتا ہے۔

میرے پيارے ہم وطنو!

 جب کروکشیتر کی جنگ میں، میدان میں ارجن نے شری كرشن سے بہت  سارے سوال پوچھے، تب کرشن نے ارجن سے کہا تھا، جیسا من میں جذبہ ہوتاہے ویسا ہی کام کا  نتیجہ ہوتا ہے اور انهوں نے کہا ہے، انسان جس بات پر یقین کرتا ہے، وہ ہی اس کو نتیجہ بھی نظر آتا ہے، وہی سمت اس کو نظر آتی ہے۔ ہمارے لئے بھی، اگر دل میں یقین مستحکم ہوگا، روشن بھارت کے لئے ہم با عزم ہوں گے، تو میں نہیں مانتا ہوں کہ جو پہلے سے بار بار مایوسی کے عالم میں ہماری پروش ہوئی ہے، اب ہمیں خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں مایوسی کو چھوڑنا ہے۔ چلتا ہے! یہ تو ٹھیک ہے! ارے چلنے دو! میں سمجھتا ہوں، چلتا ہے کا زمانہ چلا گیا، اب تو آواز یہی اٹھے کہ بدلا ہے، بدل رہا ہے، بدل سکتا ہے۔ یہی یقین ہمارے اندر ہوگا، تو ہم بھی اس یقین کے مطابق ... کام کرنے والا  ہو، ذریعہ ہو، اہلیت ہو، وسائل ہوں، لیکن جب یہ ایثارو قربانی سے جڑ جاتے ہیں، کچھ کرنے کے ارادے سے بن جاتے ہیں، تو اپنے آپ بہت بڑی تبدیلی آتی ہے اور عزم کامیابی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

بھائیو، بہنو!

آزاد بھارت میں، ہر ایک ہم وطن کے دل میں ملک کی حفاظت-سیکورٹی ایک بہت فطری بات ہے۔ ہمارا ملک، ہماری فوجیں، ہمارے بہادر مرد، ہر ایک فوجی، کوئی بھی ہو، صرف آرمی، ایئر فورس، نیوی نہیں، تمام افواج، انهوں نے جب جب موقع آیا ہے، اپنا کارنامہ دکھایا ہے، اپنی قابلیت دکھائی ہے، قربانی کی انتہا کرنے میں یہ ہمارے بہادر کبھی پیچھے نہیں رہے ہیں۔ چاہے بائیں بازو کی انتہا پسندی ہو، چاہے دہشت گردی ہو، چاہے درانداز ہوں، چاہے ہمارے اندر مشکلات پیدا کرنے والےعناصر ہوں، ہمارے ملک کے ان یونیفارم میں رہنے والے لوگوں نے قربانی کی انتہا کی ہے اور جب سرجیکل اسٹرائک ہوئی، دنیا کو ہمارا لوہا ماننا پڑا، ہمارے لوگوں کی طاقت کو ماننا پڑا۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 یہ صاف ہے کہ ملک کی سلامتی ہماری ترجیح ہے، داخلی سلامتی ہماری ترجیح ہے۔ سمندر ہو یا سرحد ہو،سائبر ہو  یا اسپیس ہو، ہرقسم کی حفاظت کیلئے  ہندوستان  اپنے آپ میں قادر ہے اور ملک کے خلاف کچھ بھی کرنے والوں کے حوصلے کو پست کرنے کے لئے ہم طاقتور ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 غریبوں کو لوٹ کرکے تجوری بھرنے والے لوگ آج بھی چین کی نیند نہیں سو پا رہے ہیں اور اس سے محنت کش اور ایماندار شخص کا بھروسہ بڑھتا ہے۔ ایماندار کو لگتا ہے کہ ہاں، اب میں ایمانداری کے راستے پر چلوں گا تو میری ایمانداری کی بھی کوئی قیمت ہے۔ آج ماحول بنا ہے کہ ایمانداری کا تیوہار منایا جارہا ہے، ایمانداری کا جشن منایا جا رہا ہے اور بے ایمانی کے لئے سر چھپانے کی جگہ نہیں بچ رہی ہے. یہ کام ایک نیابھروسہ دیتا ہے۔

بے نامی جائیداد رکھنے والے، کتنے برسوں تک قانون لٹکے پڑے تھے۔ ابھی ابھی تو ہم نے باقاعدہ قانون کے بندوبست کو آگے بڑھایا ہے ۔  اتنے کم وقت میں 800 کروڑ روپے سے زیادہ بے نامی جائیداد  حکومت نے ضبط کر لی ہے۔ جب یہ چیز ہوتی ہے تب عام آدمی کے ذہن میں ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ یہ ملک ایماندار لوگوں کے لئے ہے۔

تیس چالیس برس سے ہماری فوج کے لئے’ ون رینک - ون پنشن' معاملہ اٹکا ہوا تھا۔ جب ‘ون رینک - ون پنشن’ کا اٹکا ہوا معاملہ، حکومت اس کو پورا کرتی ہے۔ ہمارے فوجیوں کی امید-خواہشات کو پورا کرنے کی سمت میں صحیح قدم اٹھاتی ہے، تو ملک کے لئے مر-مٹنے کی طاقت ان کی اور بڑھ جاتی ہے۔

ملک میں متعدد ریاستیں ہیں، مرکزی حکومت ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ  جی ایس ٹی  نے ملک میں امداد باہمی پر مبنی وفاقیت (کوآپریٹیو فیڈرلزم) ، مسابقتی امداد باہمی  پر مبنی وفاقیت (کمپی ٹیٹیو کو آپریٹیو فیڈرلزم) کو ایک نئی طاقت دی ہے، ایک نیا نتیجہ نظر آیا ہے۔ اور  جی ایس ٹی جس طرح سے کامیاب ہوا ہے، بہت سے لوگوں کے کام کے گھنٹے (ورکنگ آورس) اس کے پیچھے لگے ہیں۔ٹیکنالوجی میں  ایک معجزہ  ہے، دنیا کے لوگوں کو عجوبہ لگتا ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے ملک میں  جی ایس ٹی کا اس طرح سے نافذ  ہونا، یہ اپنے آپ میں، ہندوستان میں کتنی طاقت ہے، ملک کی ہرنسل  میں ایک اعتماد جگانے  کے لئے کام آتا ہے۔

نئے انتظامات جنم  لیتے ہیں۔ آج دوگنی رفتار سے سڑکیں بن رہی ہیں، آج دوگنی رفتار سے ریلوے کی  پٹریاں بچھائی جارہی ہیں، آج 14 ہزار سے زیادہ گاؤں، جو آزادی کے بعد بھی اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے، وہاں تک بجلی پہنچائی جا چکی ہے اور ملک اُجالے کی  طرف بڑھ رہا ہے وہ ہم صاف دیکھ رہے ہیں۔ 29 کروڑ غریبوں کے جب بینک اکاؤنٹس کھلتے ہیں، کسانوں کے نو کروڑ سے زیادہ مٹی صحت کارڈ (سوائل ہیلتھ کارڈ) نکلتے ہیں، ڈھائی کروڑ سے زیادہ غریب ماؤں بہنوں کو لکڑی کے چولہے سے چھٹکارا مل کر کے گیس کا چولہا ملتا ہے۔غریب قبائلی کا ایک حوصلہ بلند ہو جاتا ہے۔ غریب شخص مرکزی دھارے میں جڑتا ہے اور ملک ترقی کی  جانب آگے بڑھ رہا ہے۔

نوجوانوں کو بغیر ضمانت  کے خود روزگار کے لئے آٹھ کروڑ سے زیادہ قرضے کی  منظوری ملتی ہے۔ بینک سے ملنے والے قرض میں سود کی شرحوں میں کمی ہوتی ہے۔ مہنگائی پر کنٹرول ہوتا ہے۔ مڈل کلاس کا انسان اگر اپنا گھر بنانا چاہتا ہے تو اس کو گھر بنانے کے لئے سود کی کم شرح پر پیسے مہیا کرائے جاتے ہیں۔ تب جاکر کے ملک کے لئے کرنے کے لئے، ملک آگے بڑھے گا، اس یقین کے ساتھ ملک کا عام آدمی  جڑتا رہتا ہے

وقت بدل چکا ہے۔ آج حکومت جو کہتی ہے وہ کرنے کے لئے عہد بستہ نظر آتی ہے۔ چاہے ہم نے انٹرویو ختم کرنے کی بات کی ہو، چاہے ہم نے پروسیس  کو ختم کرنے کی بات کی ہو۔

اکیلے محنت کے شعبے ( لیبر فیلڈ)میں، عام چھوٹے سے کاروباری کو بھی 50۔60 فارم بھرنے پڑتے تھے، اس کو ہم کم کرکے صرف پانچ فارم میں لے آئے ہیں۔  کہنے کا مطلب یہ ہے، میں  بہت ساری  مثالیں دے سکتا ہوں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اچھی حکمرانی (گڈ گورننس)، حکمرانی (گورننس) کے عمل (پروسیس) کو آسان (سمپلی فائی) کرنا، اس سمت میں زور دینے کا  نتیجہ ہے کہ آج تیز رفتار ترقی ہوئی ہے، فیصلوں میں تیز رفتاری آئی ہے ۔  اور اس لئے سوا سو کروڑ ہم وطن اس یقین کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو!،

آج بھارت کی ساکھ دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی، میرے ہم وطنوں کو جان کر کے خوشی ہوگی کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں، آج ہم اکیلے نہیں ہیں۔  دنیا کے کئی  ملک ہمیں سرگرم طور پر مدد کر رہے ہیں۔  حوالہ کا کاروبار ہو، تو دنیا ہمیں معلومات دے رہی ہے۔  دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں، دنیا  ہمیں معلومات دے رہی ہے۔  ہم دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ میں، دنیا کے جو جو ملک، ہمیں اس کام میں بخوبی مدد کر رہے ہیں، بھارت کی ساکھ کا وقار بڑھا رہے ہیں، میں ان کا دل سے خیرمقدم کرنا چاہتا ہوں اور یہی ہمارے عالمی تعلقات، بھارت کے امن اور سلامتی میں بھی ایک نئی جہت کا اضافہ کر رہے ہیں، ایک نئی طاقت دے رہے ہیں۔

جموں و کشمیر کی ترقی، جموں و کشمیر کا فروغ، جموں و کشمیر کے عام باشندے کے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش، یہ جموں و کشمیر کی حکومت کے ساتھ ساتھ، ہم، ہم وطنوں کا بھی عزم ہے۔  پھر سے ایک بار اس جنت کو ہم محسوس کریں، اس صورت حال میں لانے کے لیے ہم پرعزم ہیں، ہم پابند عہد ہیں،  اور اس لئے میں کہنا چاہتا ہوں، کشمیر کے اندر جو کچھ بھی ہوتا ہے، بیان بازیاں بھی بہت ہوتی ہیں، الزام در الزام بھی بہت ہوتے ہیں، ہر کوئی ایک دوسرے کو گالی دینے میں لگا رہتا ہے۔  لیکن بھائیوں بہنو، میں صاف مانتا ہوں کہ کشمیر میں جو کچھ بھی واقعات ہوتے ہیں، علیحدگی پسند، مٹھی بھر علیحدگی پسند، یہ علیحدگی پسند جس طرح سے  نئے نئے پینترے رچتے رہتے ہیں، لیکن اس لڑائی کو جیتنے کے لئے میرے دماغ میں موضوع صاف ہے۔‘نہ گالی سے مسئلہ حل  ہونے والا ہے، نہ گولی سے مسئلہ سلجھنے والا ہے، مسئلہ حل ہوگا،  ہر کشمیری کو گلے لگا کر کے سلجھنے والا ہے’ اور سوا سو کروڑ ہم وطن اسی روایت سے پلے بڑھے ہیں۔ اور اس لئے ‘نہ گالی سے نہ گولی سے، تبدیلی ہوگی، گلے لگا کر کے’ اور اس عہد کو لے کر کے ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف کسی بھی قسم کی  نرمی نہیں برتی جائے گی۔  دہشت گردوں کو بار بار ہم نے کہا ہے کہ آپ قومی دھارے میں آیئے، بھارت کی جمہوریت میں آپ کو بات کرنے کے لیے پورا  حق ہے، پورا نظام ہے۔  اور قومی دھارا ہی ہے جو ہر کسی کی زندگی میں نئی توانائی بھر سکتا ہے۔

اور اس لئے مجھے خوشی ہے کہ ہمارے حفاظتی دستوں کی کوششوں سےبائیں بازو کی انتہا پسندی (لیفٹ ونگ ایکسٹریمزم) والے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں نوجوان واپس آئے سرینڈر کیا، قومی دھارے میں آنے کی سمت میں انہوں نے کوشش کی۔

سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمارے جوان تعینات ہیں۔  مجھے خوشی ہے کی آج بھارت سرکار ایک ایسی ویب سائٹ لانچ  کر رہی ہے، جو بہادری کے ایوارڈ (گیلنٹری ایوارڈ) جيتنے والے ہیں، ہمارے ملک کے وقار کو بلند کرنے والے لوگ ہیں، ان کی پوری معلومات کے ساتھ آج ایک گیلنٹری ایوارڈحاصل کرنے والوں پر مبنی  ایک پورٹل بھی شروع کیا جا رہا ہے، جس سے ملک کی نئی نسل کو ہمارے ان بہادر قربانی دینے والوں  کے بارے میں بہت ساری معلومات حاصل ہو سکتی ہے۔

ٹیکنالوجی  کی مدد سے، ملک میں ایمانداری کو تقویت دینے کی ہم لوگوں کی بھرپور کوشش ہے۔  کالے دھن کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔  بدعنوانی کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی اور ہم نے آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی کو شامل  کرتے ہوئے، آدھارنظام کو جوڑتے ہوئے، شفافیت  لانے کی سمت میں متعدد قسم کی کامیاب کو ششیں کی ہیں اور دنیا کے بے شمار لوگ ہندوستان  کے اس ماڈل کا ذکر بھی کرتے ہیں اور اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔

حکومت میں بھی، خریداری کرنے میں،  اب معمولی آدمی بھی،  ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھا گاؤں کا آدمی بھی حکومت کو اپنا  مال سپلائی کر سکتا ہے، اپنے پروڈکٹس کو سپلائی  کر سکتا ہے۔  اس کو بڑے کی ضرورت نہیں ہے، بچولئے کی ضرورت نہیں ہے۔  جی ای ایم نام کا ایک پورٹل بنایا ہے، جی ای ایم اس کے ذریعے حکومت خریداری کر رہی ہے۔  بہت بڑے پیمانے پر  شفافیت  لانے میں کامیابی ملی ہے۔

بھائیو بہنو!

سرکاری منصوبوں کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ جب حکومت، کسی کام میں تاخیر ہو جاتی ہے، تو صرف اس پروجیکٹ میں تاخیر نہیں ہوتی،  وہ صرف دھن کے  خرچے سے منسلک موضوع نہیں ہوتا ہے۔  جب کوئی بھی کام اٹک جاتا ہے، رک جاتا ہے، تو سب سے زیادہ نقصان میرے غریب خاندانوں کو ہوتا ہے۔  میرے بھائیو بہنوں کو ہوتا ہے۔  ہم نو مہینے کے اندراندر منگلیان پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ہماری طاقت ہے۔  نو مہینے کے اندر اندر یہاں سے منگلیان پہنچ سکتے ہیں، لیکن میں ایک بار حکومت کے کام کا حساب کتاب ہر ماہ لیتا رہتا ہوں۔  ایک بار ایسی بات میرے ذہن میں آئی۔  42 سال پرانا ایک پروجیکٹ، 70 سے 72  کلومیٹر کا پروجیکٹ، ریل کا 42 سال سے اٹکا پڑا، ٹکا پڑا تھا۔  بھائیو بہنو! نو مہینے میں منگلیان پہنچنے کی صلاحیت رکھنے والا میرا ملک 42 سال تک 70 سے  72 کلومیٹر ایک ریل کی پٹری نہ بچھا دے، تب غریب کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ میرے ملک کا کیا ہوگا اور ایسی چیزوں پر ہم نے دھیان دیا ہے۔  ان چیزوں میں تبدیلی لانے کے لئے ہم نے نئی نئی ٹیکنالوجی، جیو ٹیکنالوجی  کا معاملہ ہو، - اسپیس ٹیکنالوجی کا معاملہ ہو ان ساری چیزوں کو جوڑ کرکے ہم نے اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا ایک وقت تھا،  یوریا کے لئے ریاست اور مرکز کے درمیان تناؤ چلتا تھا۔مٹی کے تیل ( کیروسین) کے لئے ریاست  اور مرکز کےدرمیان تناؤ چلتا تھا۔  ایک ایسا ماحول تھا، جیسے مرکز بڑا بھائی اور ریاست چھوٹا بھائی ہے۔  ہم نے پہلے دن سے جس سمت میں کام کیا، کیونکہ لمبے عرصے سے وزیراعلیٰ رہا ہوں، تو مجھے پتہ ہے کہ ملک کی ترقی میں ریاستوں کی کتنی اہمیت ہے۔ وزرائے اعلیٰ کی کتنی اہمیت ہے، ریاستی حکومتوں کی کتنی اہمیت ہے، اس کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں اور اس امداد باہمی پر مبنی وفاقیت (کوآپریٹیو فیڈرلزم) اور اب مسابقتی امداد باہمی پر مبنی وفاقیت (کمپٹی ٹیو کوآپریٹیو فیڈرلزم) اس پر ہم نے زور دیا ہے اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ آج سارے فیصلے، ہم مل کر کر رہے ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا اسی لال قلعہ کی فصیل سے ایک بار ملک کی ریاستوں کی بجلی کی کمپنیوں کی خراب صورتحال کی چرچا ایک وزیر اعظم نے کی تھی۔  لال قلعہ سےفکر کا اظہار کرنا پڑا تھا۔  آج ہم نے ریاستوں کو ساتھ لے کر کے ‘اُدے یوجنا’کے ذریعے ریاستوں کو طاقت دے کر کے اس بجلی کے کارخانے کے کاروبار میں یہ مسائل  تھے، اس کو حل کرنے کا کام مل کر کے کیا، وفاقیت (فیڈرلزم) کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔

جی ایس ٹی  کے ساتھ ساتھ چاہے اسمارٹ سٹی تعمیر کرنے کی بات ہو، چاہے سوؤچھتا کا ابھیان ہو، چاہے ٹوائلٹ (بیت الخلاء) کی چرچا ہو، تجارتی عمل کو آسان (ایز آف ڈوئنگ بزنس) بنانے کی بات ہو، یہ سارے موضوعات ایسے ہیں کہ ہمارے ملک کی سبھی ریاستیں  کندھے سے کندھا ملا کر آج ہندوستان کے ساتھ ہندوستان کی حکومت، کندھے سے کندھا ملا کرریاستوں  کے ساتھ چلنے میں بہت کامیاب ہو رہی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

‘نیو انڈیا’  ہماری سب سے بڑی طاقت ہے، جمہوریت ہے۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت کو بیلٹ پیپرتک محدود کر دیا ہے۔ جمہوریت، بیلیٹ پیپر تک محدود نہیں ہو سکتی اور اس لئے ہم ‘نیو انڈیا’  میں اس  جمہوریت پر زور دینا چاہتے ہیں،  جس میں نظام سے عوام نہیں، لیکن لوگوں سے  نظام چلے، ایسی جمہوریت‘ نیوانڈیا’  کی شناخت بنے، اس سمت میں ہم جانا چاہتے ہیں۔

لوک مانیہ تلک جی نے کہا تھا، ‘سوراج میرا پیدائشی حق ہے’  آزاد ہندوستان  میں ہم سب کا اصول ہونا چاہئے، ‘سُراج میرا پیدائشی حق ہے’۔  ‘سُراج ’ ہم سب کا فرض ہونا چاہئے۔شہریوں کو  اپنی ذمہ داریاں ادا  کرنی چاہیے، حکومتوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔

'سوراج سے سُراج' کی جانب جب چلنا ہے، تو ملک کے باشندے پیچھے نہیں رہتے۔  جب میں نے گیس سبسڈی چھوڑنے کیلئے کہا،تو ملک آگے آیا۔  سوؤچھتا کی بات کہی، آج بھی ہندوستان کے ہر کونے میں کوئی نہ کوئی سوؤچھتا کی مہم کو آگے بڑھا رہا ہے۔  جب نوٹ بندی کی بات آئی، دنیا کو تعجب ہوا تھا، یہاں تک  لوگ کہہ رہے تھے، اب مودی گیا،  لیکن نوٹ بندی میں سوا سو کروڑ ہم وطنوں نے جس صبر کا مظاہرہ کیا، جس اعتماد کا ثبوت دیا ، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بدعنوانی کیخلاف  نکیل لگانے میں ہم ایک کے بعد ایک قدم اٹھانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

ہمارے ملک کے لئے اس نئی عوامی شراکت کی روایت، عوامی شراکت سے ہی ملک کو آگے بڑھانے میں ہماری کوشش، یہی ہم لوگوں کو دے رہے ہیں۔ 

میرے پیارے ہم وطنو،

لال بہادر شاستری نے ‘جے جوان ، جے کسان’ کا نعرہ دیا تھا۔  ہمارے ملک کے کسان نے پیچھے مڑ کے کبھی دیکھا نہیں، فصل کی ریکارڈ پیداوار آج ہمارا کسان کرکے دے رہا ہے۔  قدرتی آفات کے درمیان میں نئی نئی کامیابیاں وہ حاصل کر رہا ہے۔ دال کی ریکارڈ پیداوارہوئی ہے اور میرے پیارے بھائیوبہنو، میرے کسان بھائیو،بہنو، ہندوستان میں کبھی بھی سرکار کے ذریعہ  دال خریدنے کی روایت ہی نہیں رہی ہے اور کبھی ایک آدھ بار کیا ہو تو ہزاروں میں ہی ہزاروں ٹن کے حساب سےہوتا  تھا، اس بار جب میرے ملک کے کسانوں نے دال کی پیداوار کرکے غریب کوتغذیئے سے بھرپور خوراک  دینے کا کام کیا، تو 16 لاکھ ٹن دال، حکومت نے خریدنے کا تاریخی کام  کرکے  اس  کام کو فروغ دیا۔

پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا، ایک حفاظتی خول میرے کسان بھائیوں کو ملا ہے۔  تین سال پہلے صرف سوا تین کروڑ کسان  اس پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا، پہلے دوسرے نام سے چلتی تھی اس کا فائدہ لیتے تھے۔  آج پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا میں  اتنی کم مدت میں نئے کسان جڑ گئے ہیں اور قریب قریب  یہ تعداد آگے چل کرکے پونے چھ کروڑ پر پہنچی ہے۔

پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا، کسان کو اگر پانی ملے تو مٹی میں سے سونا پیدا کرنے کی  طاقت رکھتا ہے اور اس  لئے کسان  کو پانی پہنچانے کے لئے میں نے پچھلی بار لال قلعے سے کہا تھا، ان اسکیموں  میں سے  21  اسکیمیں  ہم مکمل کر چکے ہیں اور باقی 50  اسکیمیں  آنے والے کچھ عرصے  میں مکمل ہو جائیں گی۔  اور کل 99 اسکیموں کا  میں نے عزم  کیا ہے۔ 2019  سے پہلے ان 99   بڑی بڑی اسکیموں کو مکمل کرکے کسان کے کھیت تک پانی پہنچانے کا کام ہم مکمل کرلیں گے۔  اور کسان کو بیج سے بازار تک، جب  تک ہم انتظام نہیں کرتے ہیں  ، ہمارے کسان کی قسمت کو ہم نہیں بدل سکتے ہیں۔  اور اس لئے، اس کے لئے  بنیادی ڈھانچہ چاہیے، اس کے لئے سپلائی چین چاہئے۔  ہر سال لاکھوں کروڑوں روپے کی  ہماری سبزی، ہمارے پھل، ہماری فصل، برباد ہو جاتی ہے اور اس لئے اس کو بدلنے  کے لئے ایک تو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری  کو فروغ دیا گیا تاکہ فوڈ پروسیسنگ  کے اندر دنیا ہمارے ساتھ جڑے۔

بنیادی ڈھانچہ بنانے کے لئے  بڑھاوا دیا اور بھارت سرکار  نے ’پردھان منتری کسان سمپدا یوجنا‘ لاگو کی ہے۔  جس کی وجہ سے  ایسے نظام تیار کئے جائیں گے، جو بیج سے بازار تک کسان کو سہارا دیں گے، نظاموں کو فروغ دیں گے  اور ہمارے کروڑوں کسانوں کی زندگی میں ایک نئی تبدیلی لانے میں ہم کامیاب ہوں گے۔

مانگ اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے، ہمارے ملک میں روزگار کی قسموں میں بھی بہت بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ روزگار سے وابستہ اسیکموں میں، تربیت کےطریقے میں 21 ویں صدی کی ضروریات کےمطابق، انسانی وسائل کی ترقی کے لئے حکومت ہند نے متعدد نئی اسکیمیں ہاتھ میں لی ہیں۔نوجوانوں کوبغیر ضمانت بینکوں سے پیسہ ملے اس کے لئے بہت بڑی مہم چلائی ہے۔ ہمارا نوجوان اپنے پیروں پر کھڑا ہو، وہ روزگار پانے والا رہے، روزگار دینے والا بنے، اور گزشتہ تین سال میں دیکھا ہے کہ ‘‘پردھان منتری مدرا یوجنا’’کی وجہ سے کروڑوں نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ایک نوجوان ایک یا دو تین اور لوگوں کو بھی روزگار دے رہا ہے۔

تعلیم کے شعبے میں عالمی سطح کی یونیورسٹیاں بنانے کے لئے ہم نے بندشوں  سے نجات دینے کا ایک بڑا اہم قدم اٹھایا ہے۔ 20 يونیورسٹيوں کو تلقین کی ہے کہ آپ اپنی قسمت کا فیصلہ کیجیے، حکومت کہیں درمیان میں نہیں آئے گی۔ اوپر سے حکومت 1000 کروڑ روپے تک کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔تلقین کی ہے، مجھے یقین ہے میرے ملک کے تعلیمی ادارے ضرور آگے آئیں گے، اس کو کامیاب کریں گے۔

گزشتہ تین سال میں6  آئی آئی ٹی ، 7نئے آئی آئی ایم ، 8نئے آئی آئی آئی ٹی،اس کی تعمیر کی ہے اور تعلیم کو نوکری کے مواقع کے ساتھ جوڑنے کا بھی کام ہم نے کیا ہے۔

میری مائیں، بہنیں آج بہت بڑی تعدادمیں، خاندان میں خواتین بھی روزگار کے لئے جاتی ہیں۔ اور اس وجہ سے رات کو بھی ان کوروزگار کا موقع ملے، فیکٹریوں میں کام کرنے کا موقع ملے، لہٰذا لیبرقوانین میں تبدیلیاں کرنے کا بہت بڑا اہم قدم اٹھایا ہے۔

ہماری مائیں، بہنیں کنبے کی بھی ایک اہم  اکائی ہیں۔ ہمارا مستقبل تعمیر کرنے کے لئے ہماری ماؤں، بہنوں کا تعاون بہت بڑا ہوتا ہے، اور اس وجہ سے زچگی کی چھٹی، جو 12 ہفتے کی تھی، وہ 26 ہفتے، اس میں آمدنی چالو رہے گی، اس طرح سے دینے کا کام کیا ہے۔

میں آج ہماری خواتین کو با اختیار بنانے کے کام کے سلسلے میں، خاص کرکے میں، ان بہنوں کا خیرمقدم کرنا چاہتا ہوں جو تین طلاق کی وجہ سے بہت ہی بدحال زندگی جینے کے لئے مجبور ہوئی ہیں۔ کوئی سہارا نہیں بچا ہے، اور ایسی مظلوم، تین طلاق سے متاثر بہنوں نے پورے ملک میں ایک مہم کھڑی کی  ہے۔ ملک کے دانشور طبقہ کو ہلا دیا، ملک کے میڈیا نے بھی ان کی مدد کی، پورے ملک میں تین طلاق کے خلاف ایک ماحول بنا۔ اس مہم کو چلانے والی اس میری بہنوں کو جو تین طلاق کے خلاف لڑائی لڑرہی ہیں، میں دل سے ان کا خیرمقدم کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے، کہ ماؤں بہنوں کے حقوں دلانے میں، ان کی اس لڑائی میں ہندوستان ان کی پوری مدد کرے گا۔ اور خواتین کو بااختیار بنانے کے اس اہم قدم میں وہ کامیاب ہوکے رہیں گی، ایسا مجھے پورا بھروسہ ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 کبھی کبھی عقیدے کے نام پر صبر کے جذبے میں کچھ لوگ ایسی چیزیں کر بیٹھتے ہیں، جو سماج کے تانے بانے کو بکھیر دیتی ہیں۔ ملک امن، خیر سگالی اور اتحاد سے چلتا ہے۔ نسل پرستی کا زہر، فرقہ پرستی کا زہر، ملک کا کبھی بھلا نہیں کرسکتا ہے۔ یہ تو گاندھی کی سرزمین ہے، بدھ کی سرزمین ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنا، یہ اس ملک کی ثقافت اور روایت کا حصہ ہے۔ ہمیں اس کو کامیابی سے آگے بڑھانا ہے، اور اس وجہ سے عقیدے کے نام پر تشدد کو تقویت نہیں دی جا سکتی ہے۔

اسپتال میں تو مریض کے ساتھ کچھ ہو جائے، اسپتال جلا دیا جائے، انہونی ہو جائے، گاڑیوں کو جلا دیا جائے، تحریک چلائیں، سرکاری املاک کو جلا دیا جائے، آزاد ہندوستان کے لیے یہ کس کا ہے؟ ہمارے سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی ملکیت ہے۔ یہ ثقافتی وراثت کس کی ہے؟ یہ ہم سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی ثقافتی وراثت ہے۔ یہ عقیدہ کس کا ہے؟ ہم سوا سو کروڑ ہم وطنوں کا عقیدہ ہے، اور اس وجہ سے عقیدے کے نام پر تشدد کا راستہ، اس ملک میں کبھی بھی چل نہیں سکتا، یہ ملک کبھی قبول نہیں کرسکتا ہے۔ اور اس میں اہل وطن  سے درخواست کروں گا، اُس وقت 'بھارت چھوڑو' کا نعرہ تھا، آج نعرہ ہے 'بھارت جوڑو'۔ فرد-فردکو ہم نے ساتھ لینا ہے، شخص شخص  کو ساتھ لینا ہے، معاشرے کے ہر طبقے کو ساتھ لینا ہے، اور اسی کو لے کر کے ہمیں ملک کو آگے بڑھانا ہے۔

خوشحال بھارت بنانے کے لئے ہماری معیشت مضبوط ہونی چاہئے۔ متوازن ترقی چاہئے، آئندہ نسل کے لئے بنیادی ڈھانچہ چاہئے، تب جا کر کے ہمارے خوابوں کے بھارت کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں۔

بھائیو بہنو!

 ان گنت فیصلے ہم نے تین سال میں لئے ہیں۔ کچھ چیزوں کو محسوس کیا گیا ہے اور کچھ چیزیں شاید نوٹس میں نہیں آئی ہیں، لیکن ایک بات اہم ہے۔جب آپ اتنی بڑی تبدیلی کرتے ہیں تو رکاوٹیں آتی ہیں، رفتار رک جاتی ہے، لیکن یہ حکومت کا طریقہ کار دیکھئے، اگر ٹرین بھی کسی ریلوے اسٹیشن کے پاس سے گزرتی ہے، جب ٹریک بدلتی ہے تو 60 کی اسپیڈ سے چلنے والی ٹرین کی رفتار 30 کی رفتار میں لانا پڑتا ہے۔ ٹریک تبدیل کرنے پر ٹرین کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ ہم پورے ملک کو ایک نئے ٹریک پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم نے اس کی رفتار کم نہیں ہونے دی ہے۔ہم نے اس کی رفتار کو برقرار رکھا ہے۔چاہے جی ایس ٹی لائے ہوں، کوئی بھی قانون لائے ہوں، کوئی بھی نیانظام لائے ہوں، ہم اس کو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور آگے بھی اس کو ہم کریں گے۔

ہم نےبنیادی ڈھانچے پر زور دیا ہے۔ غیر معمولی ، بے مثال اخراجات بنیادی ڈھانچے پر کیے جارہے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں کی جدید کاری ہو، چھوٹے شہر میں چاہے ایئرپورٹ بنانا ہو، چاہےآبی گزرگاہکا بندوبست کرنا ہو، چاہے روڈوزیز کا بندوبست کرنا ہو، چاہے گیس گرڈ بنانی ہو، چاہے پانی کی گرڈبنانی ہو، چاہے آپٹیکل فائبر نیٹ ورک قائم کرنا ہو ، ہر قسم کی جدیدیت کے ساتھ ہم ہر قسم کے بنیادی ڈھانچے  پر مکمل زور دے رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو!

21 ویں صدی میں بھارت کو آگے بڑھانے کا سب سے توانائی والا علاقہ ہے، ہمارا مشرقی ہندوستان۔ اتنے مضمرات ہیں، باصلاحیت انسانی وسائل ہیں، بے پناہ قدرتی دولت ہے، محنت سے بھرپور ہیں،عزم کرکے زندگی بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری مکمل توجہ مشرقی اتر پردیش، بہار، بنگال، آسام، شمال مشرق، اڈیشہ، یہ ہمارے ایسی باصلایت ریاستیں ہیں، جہاں قدرتی اثاثہ بھرپور ہے، اس کو آگے بڑھا کر کے ملک کو ایک نئی اونچائی پر لے جانے کی سمت میں ہم پُرعزم ہیں۔

بھائیو بہنو!

 بدعنوانی سے پاک بھارت ایک بڑا اہم کام ہے، اس پر ہم زور دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔سركار بننے کے بعد پہلا کام کیا تھا ایس آئی ٹی بنانے کا۔ آج تین سال بعد میں ہم وطنوں بتانا چاہتا ہوں اور فخر سے بتانا چاہتا ہوں کہ تین سال کے اندراندر ،قریب قریب سوا لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ کالے دھن کو ہم نے تلاش کیا ہے، اس کو پکڑا ہے اور اس کو واپس کرنے کے لئے مجبور کیا ہے۔

اس کے بعد ہم نے نوٹ بندی کا فیصلہ کیا۔ نوٹ بندی  کے ذریعے ہم نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جو کالا دھن چھپاہوا تھا، اس کو قومی دھارے میں آنا پڑا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم کبھی 07 دن -10 دن -15 دن بڑھاتے جاتے تھے، کبھی پٹرول پمپ پر، کبھی دواؤں کی دکان پر تو کبھی ریلوے اسٹیشن پر پرانے نوٹ لیناجاری رکھتے تھے، کیونکہ ہماری کوشش تھی کہ ایک بار جو بھی پیسہ آئے وہ بینکوں میں باقاعدہ معیشت کا حصہ بن جائے اور اس کام کو ہم نے کامیابی کے ساتھ کیا ہے اورا س کی وجہ یہ ہے کہ ابھی جو تحقیق ہوئی ہے، تقریباً تین لاکھ کروڑ روپے ... یہ حکومت نے تحقیق نہیں کی ہے، باہر کے ماہرین نے کی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد تین لاکھ کروڑ روپے، جو اضافی تھے، جو کبھی بینکنگ نظام میں واپس نہیں آتے تھے وہ  آئے ہیں۔

بینکوں میں جمع کی گئی رقم میں پونے دو لاکھ کروڑ سے زیادہ رقم شک کے دائرے میں ہے۔ کم از کم دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کالا دھن اسکو بینکوں تک پہنچنا پڑا ہے اور اب اس بندوبست کے ساتھ یہ اپنا جواب دینے کے لئے مجبور ہوئے ہیں۔ نئے کالے دھن پر بھی بہت بڑی رکاوٹ آ گئی ہے۔ اس سال، اس کا نتیجہ دیکھئے، یکم اپریل سے 05 اگست تک انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے والے نئے ذاتی ٹیکس دہندگان کی تعداد 56 لاكھ پہنچ گئی ہے۔ پچھلے سال اسی مدت میں یہ تعداد صرف 22 لاکھ تھی، اب دوگنا سے بھی زیادہ! یہ كالےدھن کے خلاف ہماری لڑائی کا نتیجہ ہے۔

18 لاکھ سے زیادہ ایسے لوگوں کو پہچان لیا گیا ہے، جن کی آمدنی ان کے حساب کتاب سے کچھ زیادہ ہے، بے شمار زیادہ ہے اور اس لئے اس  فرق کا ان کو جواب دینا پڑ رہا ہے۔ ساڑھے چار لاکھ لوگ اس میں سے اب میدان میں آئے ہیں،  جواپنی غلطی قبول کرکے راستے پر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک لاکھ لوگ ایسے سامنے آئے ہیں، جنہوں نے کبھی زندگی میں انکم ٹیکس کا نام بھی نہیں سنا تھا، نہ انکم ٹیکس کبھی دیا تھا اور  نہ  ہی کبھی انہوں نے اس پر سوچا تھا، لیکن آج ان کو وہ کرنا پڑ رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

ہمارے ملک میں اگر دو چار کمپنیاں بھی بند ہوجائیں، تو چوبیسوں گھنٹے اُس پر چرچائیں ہوتی ہیں، اس پر مباحثے  ہوتے ہیں۔ اقتصادی پالیسی ختم ہو گئی ... یہ ہو گیا، نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے! آپ جان کر کے حیرانی ہو گی، کالے دھن کے کاروباری، شیل کمپنیاں چلاتے تھے اور نوٹ بندی کے بعد جب اعداد و شمار کا جائزہ لیا  گیا، تو تین لاکھ ایسی کمپنیاں پائی گئیں،  جو صرف اور صرف شیل کمپنیاں ہیں، حوالہ کا کاروبار کرتی ہیں۔ تین لاکھ، کوئی تصور کر سکتا ہے۔ اور اس میں سے پونے دو لاکھ کا رجسٹریشن ہم نے منسوخ کر دیا ہے۔ پانچ کمپنیاں بند ہو جائیں تو ہندوستان میں طوفان مچ جاتا ہے۔ پونے دو لاکھ کمپنیوں کو تالے لگا دیئے۔ دیش کا مال لوٹنے والوں کو جواب دینا پڑے گا، یہ کام ہم نے کر کے دیا۔ آپ حیرانی ہو گی! کچھ تو شیل کمپنیاں ایسی ہیں، جو ایک ہی پتے پر چار سو چار سو کمپنیاں چل رہی تھیں۔

 بھائیو، بہنو،

 چار سو چار سو کمپنیاں چل رہی تھیں۔ کوئی دیکھنے والا نہیں تھا، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ساری ملی بھگت چل رہی تھی۔ اور اس لئے میرے بھائیو، بہنو، میں نے بدعنوانی کالے دھن کے خلاف ایک بہت بڑی جنگ چھیڑی ہے۔ ملک کی بھلائی کے لئے دیش کے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے، دیش کے نوجوانوں کے مستقبل کو بنانے کے لئے،

بھائیو، بہنو،

ایک کے بعد ایک قدم اور مجھے یقین ہے جی ایس ٹی کے بعد اس میں اور اضافہ ہونے والاہے۔ اور شفافیت آنے والی ہے۔  اکیلے نقل و حمل۔ ہمارا ٹرک والا ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاتا تھا۔یہ جی ایس ٹی کے بعد تیس فیصد اس وقت بچ گیا ہے۔ چیک پوسٹ ختم ہونے کی وجہ سے ہزاروں کروڑ روپے کی تو بچت ہوئی ہے۔ سب سے بڑی بچت وقت کی ہوئی ہے۔ ایک طرح سے سے اس تیس فیصد اثر انگیزی بڑھ رہی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ہندوستان کے نقل و حمل کے شعبے میں تیس فیصد اثر انگیزی بڑھنے کا مطلب کیا ہوتا ہے.۔ایک  جی ایس ٹی کی وجہ اتنا بڑا تبدیلی آئی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

 آج نوٹ بندی کی وجہ بینکوں کے پاس دھن آیا ہے۔ بینک اپنے سود کی شرح کم کر رہے ہیں۔ کرنسی کے  ذریعے عام انسان کو بینک سے پیسہ مل رہا ہے۔ عام انسان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے مواقع مل رہے ہیں۔ غریب ہو، متوسط طبقہ کا فرد ہو گھر بنانا چاہتا ہے، تو بینک اس کو مدد کرنے کے لئے آگے آ رہے ہیں، کم سود کی شرح سے آگے آ رہی ہیں۔ یہ پورے ملک کے اقتصادی نظام کو رفتار دینے کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

 اب یہ وقت بدل چکا ہے۔ ہم 21 ویں صدی میں ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نوجوان طبقہ ہمارے ملک میں ہے۔

دنیا میں ہماری پہچان آئی ٹی  کے ذریعےہے، ڈیجیٹل ورلڈکےذریعے ہے۔ کیا اب بھی ہم اسی پرانی سوچ میں رہیں گے۔ ارے! ایک زمانے میں چمڑے کے سکے چلتے تھے، آہستہ آہستہ معدوم ہو گئے کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔ آج جو کاغذ کے نوٹ ہیں، وقت آتے رہتے وہ سارا کا سارا ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہونے والا ہے۔ ہم قیادت کریں، ہم ذمہ داری لیں، ہم ڈیجیٹل لین کریں۔ ہم  بھیم ایپ کو اپنائیں، اقتصادی کاروبار کا حصہ بنیں۔ ہم پری پیڈکے ذریعے بھی کام کریں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ یہ لین دین، ڈیجیٹل لین دین میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں 34 فیصد کا اس میں اضافہ ہوا ہے اور پری پیڈادائیگی میں قریب 44 فیصد کا۔ اور اس لئے کم نقد والی معیشت اسکو لے کر کے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 حکومت کی کچھ اسکیمیں  ایسی ہیں، جو ہندوستان کے عام انسان  کے جیب میں پیسے بچا سکیں۔ اگر آپ ایل ای ڈی بلب لگاتے ہیں، تو سال بھر کا ہزار دو ہزار پانچ ہزار روپیہ  آپ کا بچنے والا ہے۔ اگر آپ سوچھ  بھارت میں کامیاب ہوتے ہیں، تو غریب کا سات ہزار کا روپیہ ادویات کا بند ہوتا ہے۔ مہنگائی پر قابو، آپ کے  بڑھتے ہوئے خرچ کو روکنے میں کامیاب ہوا ہے، ایک طرح سے آپ کی بچت ہے۔

‘جن اوشدھی کیندروں  ’کے ذریعے  سستی ادویات کی دکان غریب کے لئے ایک بہت بڑی نعمت بنی ہے۔ ہمارے یہاں  آپریشن کے پیچھے اسٹینٹ کے پیچھے جو خرچ ہوتے تھے ، آنے والے دنوں میں گھٹنےکے آپریشن کے لیے بھی ساری سہولیات.. ہماری کوشش ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ کے انسان کے لیے یہ خرچ کم ہو اور اس کے لیے ہم ایک کے بعد ایک قدم اٹھا رہے ہیں۔

پہلے ہمارے ملک میں ریاستوں کے صدر دفاتر میں ڈائلاسس ہوا کرتے تھے۔ہم نے طے کیا کہ ہندوستان کے ضلع مراکز تک  ڈائلاسس پہنچائیں گے۔  قریب ساڑھے تین سو، چار سو اضلاع تک پہنچا دیا اور  مفت میں ڈائلاسس کرکے غریب کی زندگی بچانے کا کام ہم کررہے ہیں۔

آج ملک فخر کرسکتا ہے کی ہم نے دنیا کے سامنے اپنے نظام وضع کیے ہیں۔ جی پی ایس سسٹم  کے ذریعے  این اے وی آئی سی نیوی گیشن کا بندوبست آج کرنے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے سارک سیٹلائٹ کے ذریعے ہم نے پڑوسی ممالک کے ساتھ مدد کرنے کی مہم کامیاب  کی ہے۔

ہم‘تیجس’ ہوائی جہاز کے ذریعے  آج دنیا  میں اپنی اہمیت پہنچا رہے ہیں’بھیم -آدھار ایپ‘دنیا کے اندرڈیجیٹل لین دین کے لئے ایک عجوبہ بنا ہوا ہے۔ روپئے کارڈ ….ہندوستان میں روپئے کارڈ کروڑوں کی تعداد میں ہے اور وہ کام کرنا شروع کردیگا، غریبوں کے جیب میں ہے، تو دنیا کا یہ سب سے بڑا ہو جائے گا۔

اور اس لئے میرے پیارے ہم وطنوں! میری آپ سے یہی درخواست ہے  کہ ہم ’’نیو انڈیا‘‘کا عہد  لے کر کے آگے بڑھیں، وقت کے رہتے ہوئے کریں۔ اور ہمارے یہاں شاستروں میں کہا گیا ہے:’’انیت کال، انیت کال ، پربھوتیو وپل ونتے، پربھوتیو وپل ونتے‘صحیح وقت پر اگر کوئی کام پورا  نہیں کیا گیا، تو پھر مطلوبہ نتائج کبھی نہیں ملتے ہیں۔ اور اس لئے ’ٹیم انڈیا‘کے لئے، سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی ٹیم انڈیا کے لئے، آج ہمیں  عہد لینا ہوگا 2022 تک ’نیو انڈیا‘بنانے ک۔ا اور یہ کام ہم خود کریں گے، کوئی کرے گا ایسا نہیں، ہم خود کریں گے۔ ملک کے لیے کریں گے، پہلے سے اچھا کریں گے، پہلے سے زیادہ کریں گے، لگن کے جذبے سے کریں گے، 2022 میں خوبصورت الوہی ہندوستان دیکھنے کے لئے کریں گے۔

اور اس لئے ہم سب مل کر ایک ایسا بھارت بنائیں گے جہاں غریب کے پاس پکا گھر ہو، بجلی ہو، پانی ہو۔

ہم سب مل کر ایک ایسا بھارت بنائیں گے، جہاں ملک کا کسان فکر میں نہیں، چین سے سوئے گا۔ آج وہ جتنا کما رہا ہے، اس سے 2022 تک دو گنا زیادہ كمائےگا۔

ہم سب مل کر ایک ایسا ہندوستان بنائیں گے، جہاں نوجوانوں،خواتین کو ان کے خواب پورے کرنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم ہوں گے۔

ہم سب مل کر ایک ایسا بھارت بنائیں گے، جو دہشت گردی فرقہ پرستی اور نسل پرستی سے آزاد ہو گا۔

ہم سب مل کر ایک ایسا بھارت بنائیں گے، جہاں بدعنوانی اور بھائی بھتیجہ واد سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

ہم سب مل کر ایک ایسا بھارت بنائیں گے، جو صاف ستھرا ہوگا، صحت مند ہوگا اور آزادی کے خواب کو پورا کرے گا۔

اور اس لئے میرے پیارے ہم وطنوں، ہم سب مل کر کے ہم اس ترقی کی دوڑ میں آگے چلنے کی کوشش کریں گے۔

آج آزادی کے 70 سال کے بعد، آزادی کے 75 سال کا انتظار کے درمیان پانچ سال کے اہم ترین دور میں ایک 'الوہی خوبصورت بھارت' کے خواب کو لے کر کے ہم سب اہل وطن  چلیں، اسی ایک جذبے کے ساتھ میں پھر ایک بار آزادی کے دیوانوں کو سلام کرتا ہوں۔

سوا سو کروڑ ہم وطنوں کے نئے اعتماد نئے امنگ کو سلام کرتا ہوں۔ اور نئے عہد کے ساتھ آگے چلنے کے لیے ‘ٹیم انڈیا’کو دعوت دیتا ہوں۔

اسی جذبے  کے ساتھ آپ سب کو دل سے میری بہت بہت نیک تمنائیں۔

بھارت ماتا کی جے،  وندے ماترم، جے ہند۔

جے ہند، جے ہند، جے ہند، جے ہند۔

بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے۔

وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم،وندے ماترم۔

سبھی کا بہت بہت شکریہ۔

 

 

 (م ن ۔ م ع۔ ش ت۔ ا گ۔ ح ا، ر ا۔ م م۔ن ر۔ ع ن۔ ن ا۔ ن ع۔ ک ا۔15.08.2017 )

U – 4022