Responsive image

Press Information Bureau

Government of India

Prime Minister's Office

گجرات کے کیوڈیا میں قوم کو ‘اسٹیچو آف یونٹی’ معنون کرنے کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On :31, October 2018 18:29 IST

 

نئی دہلی،31اکتوبر2018؍

میں بولوں گا سردارپٹیل، آپ لوگ بولیں گے-امر رہے، امر رہے۔

سردار پٹیل۔ امر رہے، امررہے،

سردار پٹیل۔ امر رہے، امررہے،

سردار پٹیل امر رہے، امررہے،

میں ایک اور نعرہ چاہوں گا، جو اس زمین سے ہر لمحہ اس ملک میں گونجتا رہے۔ میں کہوں گا، ملک کا اتحاد، آپ بولیں گے-زندہ باد، زندہ باد۔

ملک کا اتحاد-زندہ باد، زندہ باد۔

ملک کا اتحاد-زندہ باد، زندہ باد۔

ملک کا اتحاد-زندہ باد، زندہ باد۔

ملک کا اتحاد-زندہ باد، زندہ باد۔

اسٹیج پربراجمان گجرات کے گورنر جناب اوم پرکاش کوہلی جی، ریاست کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب وجے روپانی جی، کرناٹک کے گورنر جناب وجوبھائی والا، مدھیہ پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل،  پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور راجیہ سبھا کے رکن جناب امت بھائی شاہ، گجرات کے نائب وزیر اعلیٰ جناب نتن بھائی، اسمبلی کے اسپیکر راجیندر جی اور ملک اور بیرون ملک  سے یہاں موجود عظیم شخصیات اور میرے پیارے بھائیو اور بہنوں۔

ماں نرمدا کے اس مقدس دھارا کے کنارے پر ست پُڑا اور وندھ کے آنچل میں اس تاریخی موقع پر میں آپ سبھی کا، ملک کے باشندوں کا، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندوستانیوں کا اور ہندوستان سے محبت کرنے والے ہر کسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

آج پورا ملک سردار بلبھ بھائی پٹیل کی یاد میں راشٹریہ ایکتا دوس منا رہا ہے۔  اس موقع پر ملک کے کونے کونے میں بھارت کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے ہمارے نوجوان دوڑ لگا رہے ہیں۔ رن فار یونٹی اس میں حصہ لینے والے سبھی حصہ داروں کا بھی میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کی حب الوطنی ہی اور یہی حب الوطنی کا جذبہ ہے جس کے دم پر ہزاروں برسوں سے چلی آرہی ہماری تہذیب فروغ پا رہی ہے۔  ساتھیوں کسی بھی ملک کی تاریخ میں ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ تکمیل کا احساس کراتے ہیں۔ آج یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جو کسی قوم کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے درج ہوجاتا ہے اور اس کو مٹاپانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آج کا یہ دن بھی بھارت کی تاریخ کے ایسے ہی کچھ لمحوں میں سے ایک اہم ترین لمحہ ہے۔ بھارت کی شناخت، بھارت کے احترام کے لئے وقف ایک عظیم شخصیت کو مناسب مقام دینے کا ایک ادھورا پن لے کر کے آزادی کے اتنے برسوں تک ہم چل رہے تھے۔

آج بھارت کے موجودہ دور نے اپنی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت کو اجاگر کرنے کا کام کیا ہے۔ آج جب زمین سے لے کر کے آسمان تک سردار صاحب کا ابھیشیک ہورہا ہے، تب بھارت نے نہ صرف اپنے لئے ایک نئی تاریخ رچی ہے، بلکہ مستقبل کے لئے ترغیب کی بنیاد بھی تیار کی ہے۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے سردار صاحب کے اس عظیم مجسمے کو ملک کو معنون کرنے کا موقع ملا ہے۔ جب میں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طورپر اس کا ارادہ کیا تھا تو احساس نہیں تھا کہ ایک دن وزیر اعظم کے طورپر مجھے یہ کام کرنے کا موقع ملے گا۔ سردار  صاحب کے اس آشیرواد کے لئے، ملک کے ہزاروں لاکھوں عوام کے آشیرواد کے لئے میں  اسےخود کے لئے اعزاز مانتا ہوں۔آج گجرات کے لوگوں نے مجھے جو سپاس نامہ دیا ہے اس کے لئے بھی میں گجرات کے عوام کا بہت بہت ممنون ہوں۔ میرے لئے یہ اعزاز نامہ یا سپاس نامہ نہیں ہے، لیکن میں جس مٹی میں پلا بڑھا، جن کے بیچ  میں تہذیب  ملی اور جیسے ماں اپنے بیٹے کی پشت پر ہاتھ رکھتی ہے، تو بیٹے کی طاقت ، جذبہ اور اس کی توانائی ہزاروں گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آج آپ کے اس اعزاز نامے میں میں وہ آشیرواد محسوس کررہا ہوں۔ مجھے لوہا ابھیان کے دوران ملے لوہے کا پہلا ٹکڑا بھی سونپا گیا ہے۔ جب احمد آباد میں ہم نے ابھیان شروع کیا تھا تو جس ترنگے کو لہرایا گیا تھا وہ مجھے تحفے کی شکل میں دیا گیا ہے۔ میں آپ سبھی کے تئیں ، گجرات کے لوگوں کے تئیں احسان مند ہوں اور میں ان چیزوں کو یہیں پر چھوڑوں گا  تاکہ آپ یہاں کے میوزیم میں اسے رکھ پائیں، تاکہ ملک کو پتہ چلے۔

مجھے وہ پرانے دن یاد آرہے ہیں اور آج جی بھر کرکے بہت کچھ کہنے کا دل بھی کرتاہے۔ مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب ملک کے بھر کے گاؤں  کے کسانوں سے مٹی مانگی گئی تھی اور کھیتی میں کام کئے گئے پرانے اوزار اکٹھا کرنے کا کام چل رہا تھا۔ جب ملک بھر کے لاکھوں گاوؤں کے کروڑوں کسان کنبوں نے خود آگے بڑھ کر اس مجسمہ کی تعمیر کو ایک عوامی تحریک کی شکل دے دی تھی۔ جب ان کے ذریعے دیئے اوزاروں سے سینکڑوں میٹرک ٹن لوہا نکالا اور اس مجسمہ کی ٹھوس بنیاد تیار کی گئی۔

ساتھیوں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب یہ خیال میں نے سامنے رکھا تھا تو خدشات اور اندیشے کا بھی ماحول بنا تھا اور میں پہلی بار ایک بات آج ظاہر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ جب یہ تصور ذہن میں چل رہا تھا تب میں یہاں کے پہاڑوں کو کھوج رہا تھا کہ مجھے ایسی کوئی بڑی چٹان مل جائے ، اسی چٹان کی نقاشی کرکے اس میں سے سردار صاحب کا مجسمہ نکالوں ۔ ہر طرح کی جانچ پڑتال کے بعد پایا کہ اتنی بڑی چٹان بھی ممکن نہیں ہے اور یہ چٹان بھی اتنی مضبوط نہیں ہے تو مجھے اپنی سوچ بدلنی پڑی  اور آج آپ جو شکل دیکھ رہے ہیں اس  سوچ نے اس میں سے جنم لیا۔ میں مسلسل سوچتا رہتا تھا ، لوگوں سے غورو فکر کرتا رہتا تھا اور سب کے مشورے لیتا رہتا تھا اور آج مجھے خوشی ہے کہ ملک کے اس اہم ترین پروجیکٹ سے جڑے عوام نے ملک کے اعتماد کو، اہلیت کو ایک چوٹی پر پہنچا دیا۔

بھائیوں اور بہنوں، دنیا کا یہ سب سے اونچا مجسمہ پوری دنیا کو ، ہماری نسلوں کو ، اس شخص کی ہمت، اہلیت کو یاد دلاتا رہے گا۔ جس نے ماں  بھارتی کو کھنڈ کھنڈ ، ٹکڑوں میں کرنے کی سازش کو ناکام کرنے کا مقدس کام کیا تھا۔ جن شخصیت نے ان سبھی اندیشوں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم کردیا، جو اس وقت کی دنیا مستقبل کے بھارت کے تئیں جتا رہی تھی۔ ایسے مرد آہن سردار بلبھ بھائی پٹیل کو بہت بہت سلام کرتا ہوں۔

ساتھیوں، سردار صاحب کی ہمت تب بھار ت کے کام آئی تھی جب ماں بھارتی 550 سے زیادہ ریاستوں میں منقسم تھی۔ دنیا میں بھارت کے مستقبل کے تئیں بہت زیادہ مایوسی تھی اور مایوسی کے شکار لوگ اس زمانے میں بھی تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ بھارت اپنی تکثیریت کی وجہ سے ہی منتشر ہوجائے گا۔ حالانکہ ناامیدی کے اس دور میں بھی سبھی کو امید کی ایک کرن نظر آتی تھی اور یہ امید کرن بھی سردار بلبھ بھائی پٹیل تھے۔ انہوں نے 5 جولائی 1947ء کو ریاستوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا  اور میں مانتا ہوں کہ سردار صاحب کے وہ جملے آج بھی اتنے ہی موزوں ہیں۔ سردار صاحب نے کہا تھا کہ غیر ملکی حملہ آوروں  کے سامنے ہمارے آپسی جھگڑے، آپسی دشمنی  ، ہماری شکست کی بڑی وجہ تھی۔ اب ہمیں اس غلطی کو نہیں دہرانا ہے اور نہ ہی دوبارا کسی کا غلام ہونا ہے۔

سردار صاحب کے اسی خطاب سے متحد ہونے کی طاقت کو سمجھتے ہوئے ان راجہ رجواڑوں نے اپنی ریاستوں کو ضم کیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے بھارت ایک ہوگیا۔سردار صاحب کی اپیل پر ملک کے سینکڑوں راجہ رجواڑوں نے قربانی کی مثال قائم کی تھی۔ ہمیں ان کی قربانی کو کبھی بھی نہیں بھولنا چاہئے ا ور میرا ایک خواب بھی ہے کہ اسی جگہ کے ساتھ جوڑ کرکے یہ 550 سے زیادہ جو راجہ رجواڑے تھے انہوں نے ملک کے اتحاد کے لئے جو قدم اٹھائے تھے اس کا بھی ایک ورچوئل میوزیم تیار ہو، تاکہ آنے والی نسل کو ورنہ آج جمہوری طریقے سے ایک تحصیل کا صدر چنا جائے  اور اس  کو کہا جائے کہ بھائی ایک سال پہلے چھوڑ دو تو بڑا طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ ان راجہ مہاراجاؤں نے صدیوں سے اپنے آبا ء و اجداد کی چیزیں ملک کو دے دی تھیں۔ اس کو ہم کبھی بھول نہیں سکتے، اس کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔

ساتھیوں! جس کمزوری پر  دنیا ہمیں اس وقت طعنے دے رہی تھی اسی کو طاقت بناتے ہوئے سردار پٹیل نے ملک کو راستہ دکھایا تھا۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے بھارت آج دنیا سے اپنی شرطوں پر ڈائیلاگ کررہا ہے۔ دنیا کی بڑی معاشی طاقت بننے کی طرف ہندوستان آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ اگر ممکن ہو پایا ہے تو اس کے پیچھے معمولی کسان کے گھر میں پیدا ہوئے اس غیر معمولی شخصیت کے حامل سردار صاحب کا بڑا تعاون تھا، بہت بڑا رول رہا ہے۔ چاہے جتنا دباؤ کیوں نہ ہو، کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہو انتظامیہ میں حکمرانی کو کیسے قائم کیا جاتا ہے ، یہ سردار صاحب نے کرکے دکھایا ہے۔ کچھ سے لے کرکے کوہیما تک ، کرگل سے لے کر کنیا کماری تک آج اگر بے روک ٹوک ہم جا پارہے ہیں تو یہ سردار صاحب کی وجہ سے، ان کے عزم سے ہی ممکن ہوپایا ہے۔ سردار صاحب نے عزم نہ کیا ہوتا، تھوڑی دیر کے لئے تصور کیجئے میں اپنے ملک کے باشندوں کو جھکجھورنا چاہتاہوں۔ تھوڑی دیر کے لئے تصور کیجئے اگر سردار صاحب نے یہ کام نہ کیا ہوتا ، یہ عزم نہ کیا ہوتا ، تو آج گِر کے لائن اور گِر کے شیر کو دیکھنے کے لئے اور شیو بھکتوں کے لئے سومناتھ میں پوجا کرنے کے لئے اور حیدرآباد کے چار مینار کو دیکھنے کے لئے ہم ہندوستانیوں کو ویزا لینا پڑتا۔ اگر سردار صاحب کا عزم نہ ہوتا تو کشمیر سے کنیاکماری تک کی براہ راست ٹرین کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔  اگر سردار صاحب کا عزم نہ ہوتا تو سول سیوا جیسے انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں ہمیں بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا۔

بھائیو ں اور بہنو، 21 اپریل 1947ء کو آل انڈیا ایڈ منسٹریٹیو سروسیز کے پروبیشنرز کو خطاب کرتے ہوئے سردار بلبھ بھائی پٹیل نے کہا تھا اور بڑے لفظ اہم ترین ہے۔ آج بھی جو آئی ایس ،آئی پی ایس ، آئی ایف ایس جو بھی ہیں یہ لفظ ہرکسی کو یاد رکھنا چاہئے، تب سردار صاحب نے کہا تھا اب تک جو آئی سی ایس یعنی انڈین سول سروسیز تھی اس میں نہ تو کچھ انڈین تھا ، نہ وہ سول تھی اور نہ ہی اس میں سروس کا کوئی احساس تھا۔ انہوں نے نوجوانوں سے صورتحال کو بدلنے کی اپیل کی۔ انہوں نے نوجوانوں سے کہا تھا کہ انہیں پوری شفافیت کے ساتھ، پوری ایمانداری کے ساتھ انڈین سول سروسیز کا فخر بڑھانا ہے۔ اسے بھارت کی تشکیل نو کے لئے قائم کرنا ہے۔یہ سردار کی ہی ترغیب تھی کہ انڈین سول سروسیز کا موازنہ اسٹیل فریم سے کیا گیا۔

بھائیوں اور بہنوں سردار پٹیل کو ایسے وقت میں ملک کا وزیر داخلہ بنایا گیا تھا جو بھارت کی تاریخ کا سب سے مشکل دور تھا۔ ان کے ذمے ملک کے وسائل کی از سر نو تشکیل کا ذمہ تھا تو ساتھ میں درہم برہم قانون و انتظام کو سنبھالنے کا فریضہ بھی تھا۔ انہوں نے ان مشکل حالات سے ملک کو باہر نکالتے ہوئے ہمارے جدید پولس نظام کے لئے ٹھوس بنیاد بھی تیار کی۔ خواتین کو بھارت کی سیاست میں سرگرم تعاون دینے کے اختیار کے پیچھے بھی سردار بلبھ بھائی پٹیل کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ جب ملک میں مائیں اور بہنیں پنچایتوں اور شہری اداروں کے انتخابات تک میں حصہ نہیں لے سکتی تھیں،تب سردار صاحب نے اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ان کی پہل پر ہی آزادی کے کئی دہائی پہلے اس بھید بھاؤ کو دور کرنے کا راستہ کھولا گیا تھا۔ وہ سردار صاحب ہی تھے جن کے چلتے آج بنیادی حق جمہوریت کا اہم حصہ ہے۔

ساتھیوں ، یہ مجسمہ سردار پٹیل  کے اسی پختہ عہد ، صلاحیت ، جواں مردی اور خیرخواہی کے احساس کی یہ جیتی جاگتی علامت ہے۔ یہ صلاحیت ان کی خیرخواہی اور ان کی وابستگی  کا احترام تو ہے ہی  یہ نیو انڈیا ، نئے بھارت کی خود اعتمادی  کا بھی اظہار ہے۔ یہ مجسمہ بھارت کے وجود پر سوال اٹھانے والوں کو یہ یاد دلانے کے لئے یہ ملک ہمیشہ قائم و دائم تھا ، قائم دائم ہے اور قائم دائم رہے گا۔

یہ پورے ملک کے ان کسانوں کے وقار کی علامت ہے، جن کی کھیت کی مٹی سے اور کھیت کےسازوسامن کے لوہے اس کی مضبوط نیو بنے ہیں اور ہر چیلنج سے ٹکراکر  اناج پیدا کرنے کا ان کا جذبہ  اس کی روح بنا ہے۔ یہ ان آدی واسی بھائی بہنوں کے تعاون کا اسمارک ہے جنہوں نے آزادی کی تحریک سے لے کر ترقی کے سفر میں اپنا گراں قدر تعاون کیا ہے۔ یہ اونچائی یہ بلندی ہندوستان کے نوجوانوں کو یہ یاد دلانے کے لئے ہے کہ مستقبل کا ہندوستان آپ کی امیدوں کا ہے جو اتنا ہی  وسیع ہے۔ ان امیدوں کی تکمیل کی صلاحیت اور  منتر صرف اور صرف ایک ہی ہے ’’ایک بھارت شریسٹھ بھارت‘ ایک بھارت شریسٹھ بھارت، ایک بھارت شریسٹھ بھارت‘‘۔

دوستوں اسٹیچو آف یونیٹی ، یہ ہماری انجینئرنگ اور تکنیکی صلاحیت کی بھی علامت ہے۔ گزشتہ قریب ساڑھے تین سالوں میں ہر روز  اوسطاً ڈھائی ہزار مزدورں نے  ، دستکاروں نے ، مشن موڈ پر کام کیا ہے۔ کچھ وقت کے بعد جن کا احترام ہونے والا ہے ۔ 90 کی عمر کو پار کرچکے ہیں ایسے ملک کے معزز  دستکار جناب رام سوتار جی کی رہنمائی میں ملک کے ماہر دستکاروں کی ٹیم نے  فن کے اس قابل فخر اسمارک  کو پورا کیا ہے۔ من میں مشن کا جذبہ قومی یکجہتی کے تئیں خود سپردگی اور  بھارت بھکتی کی ہی طاقت ہے جس کی وجہ سے اتنے کم وقت میں یہ کام پورا ہوگیا ہے۔ سردار سروور ڈیم کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا اور کتنی دہائی کے بعد اس کا افتتاح ہوا، یہ تو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے ہوگیا۔ اس عظیم کام سے جڑے ہر مزدور، ہر کاریگر ، ہر دستکار ،  ہر  انجینئر اس میں تعاون کرنے والے ہر کسی کا میں پوری عزت کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں اور سب کو بہت بہت مبارک  باد پیش کرتا ہوں۔ بالواسطہ اور بالا واسطہ طور سے اس کے ساتھ جڑے  آپ سب کا نام بھی سردار جی کے اس  مجسمے کے ساتھ  تاریخ کا ایک اہم ترین حصہ ہوگیا ہے۔

دوستوں، آج  جو سفر ایک منزل تک پہنچا ہے اس کا سفر 8 سال قبل آج ہی کے دن شروع ہوا تھا۔ 31 اکتوبر 2010 کو  احمدآباد میں میں نے  سب سے پہلے یہ خیال سب کے سامنے رکھا تھا۔ کروڑوں ہندوستانی کی طرح اس وقت میرے ذہن میں ایک ہی جذبہ تھا کہ جس عظیم شخص نے  ملک کو  ایک کرنے کے لئے اتنا بڑا کام کیا ہے، اس کو وہ احترام ضرور ملنا چاہئے جس کا وہ حقدار ہے۔ میں چاہتا تھا کہ  یہ احترام بھی انہیں اس کسان ،  اس مزدور کے پسینے سے ملے جس کے لئے سردار پٹیل نے پوری زندگی جدوجہد کی تھی۔ ساتھیوں سردار پٹیل جی نے  کھیڑا سے  باردولی تک کسانوں کے استحصال کے خلاف  نہ صرف آواز بلند کی ، ستیہ گرہ کیا بلکہ اس کا حل بھی پیش کیا ۔ آج کی امداد باہمی کی تحریک  جو ملک کے کئی گاؤں میں معیشت  کی مضبوط بنیاد بن چکی ہے، یہ سردار صاحب کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے۔

ساتھیوں، سردار پٹیل کا یہ اسمارک  ان کے تئیں کروڑوں ہندوستانیوں کے احترام اور  اہل وطن کی صلاحیت کی علامت تو ہے ہی  یہ  ملک کی معیشت  ، روزگار  کے مواقع پیدا کرنے میں بھی اہم مقام  ہونے والا ہے۔ اس سے ہزاروں  آدی واسی بھائی بہنوں کو ہر سال  براہ راست روزگار ملنے والا ہے۔ ست پورہ اور وندھیہ کے اس انچل  میں رہنے والے  آپ  سب کوقدرت نے آپ کو جو کچھ سونپا ہے وہ اب  جدید شکل میں آپ کے کام آنے والا ہے۔

 ملک نے  جن جنگلوں کے بارے میں کویتاؤں کے ذریعہ پڑھا تھا، اب ان جنگلوں ، ان آدی واسی روایتوں سے  پوری دنیا  براہ راست  سامنا کرنے والی ہے۔ سردار صاحب کے درشن کرنے والے ٹورسٹ  سردار سروور  ڈیم ، ست پوڑہ اور وندھیہ کے  پہاڑوں کو بھی دیکھ پائیں گے۔ میں حکومت گجرات کی پھر تعریف کروں گا کہ وہ اس مجسمے کے آس پاس  کے تمام علاقوں کو  ٹورسٹ اسپاٹ کے طور پر  فروغ دے رہے ہیں جو پھولوں کی گھاٹی بنی ہے  یعنی  ویلی آف فلاورس کو اس اسمارک کو پرکشش بنانے والی اور میں تو چاہوں گا کہ یہ ایک  ایسی  ایکتا نرسری بنے کہ یہاں آنے والا ہر سیاح  ایکتا نرسری سے  اتحاد کا پودا اپنے گھر لے جائے اور  اتحاد کا پیڑ لگائے اور  ہر لمحہ ملک کے اتحاد  کو یاد کرتا رہے۔ ساتھ ہی  سیاحت یہاں کے عوام کی زندگی کو  بدلنے والا ہے۔

ساتھیوں، اس ضلع  اور  اس علاقے کا روایتی علم بہت  مالا مال رہا ہے ۔ اسٹیچو آف یونیٹی کی وجہ سے جب سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا تو اس علم کے روایتی  گیان کی بھی توسیع ہوگی  ۔   اس خطے کی ایک نئی شناخت بنے گی۔ مجھے یقین ہے کہ میں اس علاقے سے  جڑا رہا ہوں، اس لئے مجھے کافی چیزیں معلوم ہیں، شاید یہاں بیٹھے ہوئے کئی لوگوں کے دل میں بھی آراہا ہوگا کہ میرے کہنے کے بعد یہاں چاو ل سے بنے اونا- مانڈا ، تہلا- مانڈا ، ٹھکالا- مانڈا  یہ ایسے پکوان ہیں جو یہاں آنے والے سیاحوں کو خوب  بھائیں گے ، خوب پسند آئیں گے۔ اسی طرح یہاں کثرت سے اگنے والے پودے  سے  آیوروید سے جڑے لوگ اچھی طرح  واقف ہیں۔ کھاتی بھنڈی یہاں علاج کے لئے  کئی خصوصیات سے بھری ہوئی ہے اور یہاں اس کی پہچان دور دور تک پہنچنے والی ہے۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ اسمارک یہاں پر زراعت کو بہتر بنانے ،آدی واسیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے  کے لئے  ریسرچ سینٹر بھی بنے گا۔

 ساتھیوں، گزشتہ چار برسوں کے دوران  ملک کے ہیرو کے تعاون کو  یاد کرنے کی ایک بڑی تحریک حکومت نے شروع کی ہے۔ جب میں گجرات کا وزیراعلیٰ تھا تو اس قت بھی  میں ان چیزوں کو کرنا چاہتا تھا۔ یہ ہماری قدیم تہذیب وثقافت ، سنسکار ہے جن کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل  کا یہ  فلک بوس مجسمہ  ہے ، ان کی یاد میں دہلی میں  بھی ہم نے  ایک جدید میوزیم بنایا ہے ، گاندھی نگر کا مہاتما مندر اور ڈانٹی کٹیر ہو، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے  پنچ تیرتھ ہوں ،  ہریانہ میں کسان رہنما  سر چھوٹو رام  کا ہریانہ  کا سب سے اونچا مجسمہ ہو ، کچھ کے مانڈوی  میں آزادی کے مسلح تحریک کے پرودھا ہوں ، گجرات کی سرزمین کے سپوت شیام جی کرشن ورما کا اسمارک ہو اور ہمارے آدی واسی  بھائی بہنوں کے  بہادر رہنما  گووند گرو کا شردھا استھل ہو، ایسے کئی  عظیم رہنماؤں کے اسمارک پچھلے دنوں ہم تیار کرچکے ہیں۔

 اس کے علاوہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کا دہلی میں میوزیم ہو ، چھتر پتی شیواجی مہاراج کا  ممبئی میں  شاندار  مجسمہ ہو یا پھر  ہمارے آدی واسی  ہیرو  ، ملک کی آزادی کے بہادر  ہوں، ان کی یاد  میں  میوزیم بنانے کا کام ہو ، ان سبھی معاملے پر ہم  تاریخ کو ایک بار پھر زندہ کرنے کے لئے کام کررہے ہیں۔ بابا صاحب کے تعاون کو یاد کرنے کے لئے  26 نومبر کو یوم  آئین کو  جامع  بنانے کا فیصلہ ہو  یا پھر نیتاجی کے نام پر  قومی اعزاز شروع کرنے کا اعلان ہو، یہ ہماری حکومت نے  ان تمام  باتوں کی شروعات کی ہے۔ لیکن دوستوں  کئی بار تو  میں حیران رہ جاتا ہوں جب ملک میں ہی کچھ لوگ ہماری  اس مہم کو  سیاسی چشمے سے دیکھنے  کی  کوشش کرتے ہیں۔

سردار پٹیل جیسا  عظیم شخص ، ملک کے سپوتوں کی تعریف کرنے کے لئے بھی  پتہ نہیں ہماری  تنقید کی جاتی ہے ، ایسا محسوس کرایا جاتا ہے کہ جیسے ہم نے  بڑا جرم کردیا ہے ۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا ملک کے عظیم سپوتوں کو یاد کرنا جرم ہے  کیا؟ ساتھیوں ہماری کوشش  ہے کہ ہندوستان کی  ہر  ریاست  کے شہری  اور ہر شہری کی صلاحیت  سردار پٹیل کے ویزن کو آگے بڑھانے میں ، اپنی طاقت کو پورے طور پر بروئے کار لاسکے۔ بھائیوں بہنوں ، سردار پٹیل نے آزاد ہندوستان میں  جس طرح کے گاؤں  کا تصور کیا تھا اور جس کا ذکر انہوں نے آزادی کے تین چار مہینے پہلے  وٹھل بھائی پٹیل کالج  کے قیام کے دوران کیا تھا اور سردار صاحب نے کہا تھا کہ  ہم  اپنے گاؤں میں بہت ہی بے ترتیب طریقے سے   گاؤں کی تعمیر کررہے ہیں، سڑکیں بھی  بغیر کسی  سوچ کے بنائی جارہی ہیں اور گھروں کے سامنے  گندگی کا انبار رہتا ہے۔ سردار صاحب نے  اس وقت  گاؤں کو  کھلے میں رفع حاجت سے پاک کرنے کے لئے  ، دھوئیں اور گندگی سے  آزاد کرنے کی اپیل کی تھی ، مجھے خوشی ہے کہ  سردار صاحب نے جو خواب دیکھا تھا، ملک آج اس کو  شرمندہ تعبیر کرنے کی جانب  بڑھ رہا ہے۔ عوامی حصہ داری کی وجہ سے اب  ملک میں  گرامین سوچھتا کا دائرہ  95 فیصد تک پہنچ گیا ہے ۔

 بھائیوں اور بہنوں،  سردار پٹیل چاہتے تھے کہ ہندوستان مضبوط طاقت ور، حساس ، مستعد  اور  ہمہ گیر بنے۔ ہماری ساری  کوششیں  ان کے اسی خواب کو  شرمندہ تعبیر کرنے  کے لئے  ہورہی ہیں۔ ہم  ملک کے ہر بے گھر کو پکا گھر دینے کی  بھگیرتھ  یوجنا پر کام کررہے ہیں، ہم نے ان 18 ہزار گاؤں تک بجلی پہنچائی ہے جہاں آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی نہیں پہنچی تھی۔ ہماری حکومت  سوبھاگیہ یوجنا کے تحت ملک کے  ہر گھر تک بجلی کے کنکشن پہنچانے کے لئے  دن رات مصروف ہے ۔ ملک کے ہر گاؤں کو  سڑک سے جوڑنا  ، آپٹیکل فائبر نیٹ ورک سے جوڑنا،  ڈیجیٹل کنکٹی ویٹی سے جوڑنے کا کام آج تیز رفتار سے کیا جارہا ہے۔ ملک میں آج ہر گھر میں گیس کا چولہا ہو ، گیس کا کنکشن پہنچے  اس کوشش کے ساتھ ہی ملک کے ہر گھر میں بیت الخلاء کی سہولت  فراہم کرنے کے لئے کام ہورہا ہے۔

جب میں دنیا کے لوگوں کو بتاتا ہوں تو ان کو حیرت ہوتی ہے کہ  امریکہ کی آبادی  ، میکسیکو کی آبادی  ، کینیڈا کی آبادی  ان سب کو  ملالیں  اور جتنی آبادی ہوتی ہے اس سے زیادہ لوگوں کے لئے  پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا  ، ایوش مان بھارت یوجنا   شروع کی ہے  تو لوگ کبھی کبھی اسے  مودی کیئر بھی کہتے ہیں۔ یہ صحت مند ہندوستان کی تعمیر میں مدد کرنے والی اسکیمیں ہیں ۔ وہ ہندوستان کو  ایوش مان کرنے والی اسکیمیں ہیں، یہ سب کو ساتھ لے کر اور مضبوط ہندوستان کے  مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کی  ہماری بنیاد ، ہمارے حوصلے کا منتر  ’’سب کا ساتھ  سب کا وکاس ‘‘  ہے ۔

بھائیوں بہنوں ، سردار صاحب نے ریاستوں کو جوڑ کر  ملک کو سیاسی طور پر متحد کیا تھا ۔ وہیں ہماری سرکار  نے جی ایس ٹی کے ذریعے سے  ملک کو  اقتصادی طور پر متحد کیا ہے۔  ون نیشن ، ون ٹیکس  کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ہے ، ہم ہندوستان جوڑو کے سردار صاحب کے  ارادوں کو لگاتار  فروغ دے رہے ہیں، خواہ ملک کی بڑی  زرعی منڈیوں کو جوڑنے والی  انعام یوجنا ہو ، ون نیشن ، ون گرڈ  کا کام ہو ، یا پھر بھارت مالا  ، سیتوا بھارتم ، بھارت نیک جیسے  متعددی پروگرام کے ذریعے ہماری حکومت ملک کو جوڑ کر  ’’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘‘  کے سردار صاحب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مصروف ہیں۔

ساتھیوں،  آج ملک کے لئے سوچنے والے نوجوانوں کی طاقت ہمارے پاس ہے ، ملک کی ترقی کا یہی ایک راستہ ہے  جس کو لے کر  سبھی  دیش واسیوں کو آگے بڑھنا ہے۔ ملک کے اتحاد  ، سالمیت  اور خود مختاری کو  برقرار رکھنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جو سردار ولبھ بھائی پٹیل ہم ہندوستانیوں کو سونپ کر گئے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم  ملک کو بانٹنے کی طرح طرح کی کوششوں کا پرزور طریقے سے جواب دیں اور  اس لئے ہمیں ہر طرح سے چوکنا رہنا ہے۔ سماج کے طور پر  متحد رہنا ہے، ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اپنے سردار کے  سنسکاروں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ  آنے والی نسلوں میں بھی  اتارنے کوئی  کمی نہیں رکھیں گے۔

 ساتھیوں، سردار ولبھ بھائی پٹیل کہتے تھے، ہر ہندوستانی کو ،  اور میں سردار صاحب  کے الفاظ سنارہا ہوں، سردار صاحب کہتے تھے -  ہر ہندوستانی  کو یہ بھولنا ہوگا کہ  کس ذات یا طبقے سے  تعلق رکھتا ہے، اس کو صرف ایک ہی بات یاد رکھنی ہوگی کہ وہ ہندوستانی ہے اور  جتنا اس ملک پر حق  ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری بھی ہے۔ سردار صاحب کا یہ جذبہ اس بلند مجسمے کی طرح ہمیشہ ہمیں ترغیب دیتا رہے، اس امید کے ساتھ ایک بار پھر اسٹیچو آف یونیٹی کے لئے صرف ہندوستانیوں کا ہی  معاملہ نہیں ہے، یہاں پوری دنیا کے ہر ساتھی کو  میں مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں لگے ہر کسی کو مبارک باد دیتا ہوں، ماں نرمدا ور تاپتی کی گھاٹیوں میں بسے ہوئے ہر آدی واسی بھائی بہن  ، نوجوان ساتھی کو بھی  بہتر مستقبل کی دل کی گہرایوں سے  نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

پورا ملک اس موقع پر متحد ہے، پوری دنیا کے لوگ آج اس موقع پر  جڑے ہیں اور اتنی امنگ اور توانائی کے ساتھ اتحاد  کے منتر کو آگے لے جانے کے لئے  یہی  اتحاد کا یہ تیرتھ تیار ہوا ہے۔ اتحاد کی ترغیب کا مرکز ہمیں یہاں حاصل ہوا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ہم چلیں اور اوروں کو بھی چلائیں، ہم جڑیں اور اوروں کو بھی جوڑیں اور ہندوستان کو ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ بنانے کے عہد کا خواب لے کر چلیں۔

میرے ساتھ بولیں:

سردار پٹیل- جے ہو

سردار پٹیل – جے ہو

دیش  کی ایکتا  زندہ باد

دیش کی ایکتا- زندہ باد

دیش کی ایکتا- زندہ باد

دیش کی ایکتا- زندہ باد

بہت بہت شکریہ!

 

م ن۔ن ا۔ش س۔ن ع ۔ق ر

U: 5583