Responsive image

Press Information Bureau

Government of India

Special Service and Features

خصوصی فیچر: راشٹریہ ایکتا دیوس (31 اکتوبر)

Posted On :30, October 2017 17:34 IST

سردار پٹیل کے یوم پیدائش کی سالگرہ

پٹیل: زندگی ، پیغام اور ان کی دائمی افادیت

 

http://pibphoto.nic.in/documents/rlink/2017/oct/i2017103014.jpg

*گورو پرکاش

 

 ’’کام ایک عبادت ہے، لیکن ہنسی انداز حیات ہے۔ کوئی بھی شخص جو زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتا ہے اُسے ایک پریشان کن وجود کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہئے۔ کوئی شخص جو خوشیوں اور غموں کو یکساں طور پر لیتا ہے وہ حقیقت میں بہترین زندگی گزارتا ہے۔‘‘

اس بیان کو دیکھ کر کوئی بھی شخص آسانی سے یہ غلطی کرسکتا ہے کہ یہ فکرانگیز جملہ کسی روحانی پیشوا کا ہوگا، جس نے دنیا کو ترک کردیا ہے اور اپنی زندگی کسی بڑے مقصد کے لئے وقف کردی ہے۔ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ مندرجہ بالا بیان، بھارت کے مرد آہن، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے بہت سے غیرسیاسی بیانات میں سے ایک ہے۔

ابتدائی زندگی اور کسان جدوجہد

گجرات کے ضلع کیرا میں ناڈیاڈ گاؤں میں، لاڈبائی اور جھاویری بھائی پٹیل کے کسان کنبے کے پانچ بھائیوں اور بہنوں کے کنبے میں پیدا ہوئے ولبھ بھائی، بھارت کی آزادی اور آزاد بھارت کو متحد کرنے کے عظیم مقصد کے لئے کوشاں تھے۔ اپنے ابتدائی برسوں میں ان کی والدہ نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر مرتب کیا تھا۔ ایک عام دیہاتی ماحول میں، ان کی ماں، تمام بچوں کو اکٹھا کرکے رامائن اور مہابھارت کی کہانیاں سناتی تھیں۔ ان کہانیوں کا اثر نوجوان پٹیل پر روحانی طور پر ہوا، جبکہ ان کے والد نے انھیں کھیتی کسانی کی حقیقی دنیا سے آشنا کرایا۔ چھوٹی عمر میں ولبھ بھائی اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں جایا کرتے تھے اور اس کی وجہ سے وہ کھیت جوتنے اور مویشی پروری کے کام میں ماہر ہوگئے۔ اپنے کسان اجداد کے تئیں ان کی محبت ہی تھی کہ ایک مرتبہ جب ایک امریکی صحافی نے ان سے ان کی ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس کا فوراً جواب اس طرح دیا کہ مجھ سے کچھ اور پوچھیں، میرا کلچر زراعت ہے۔

ان کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ، جس کی وجہ سے پٹیل عوامی زندگی میں آگے آئے، بنیادی طور پر ایک کسان لیڈر کے طور پر ان کا سفر تھا۔ عوامی زندگی سے آخرکار وہ آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے، جس میں انھوں نے کامیابی سے باروڈ اور کھیڑا میں کامیاب ستیہ گرہ کئے، جہاں انھوں نے اپنی غیرمعمولی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور برطانوی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور برطانوی حکومت کو مالیے میں کئے گئے زبردست اضافے کو، واپس لینے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔

سیاسی تدبر اور سیاسی سوجھ بوجھ

سردار پٹیل کا تعلق اس سیاسی فہم و فراست کی حامل قیادت سے تھا جس نے نہ صرف جدوجہد آزادی میں مؤثر تعاون دیا بلکہ آزادی کے بعد بھی قومی تعمیرنو میں، رہنمائی کے فرائض انجام دئے۔

’’ہم نے حصول آزادی کے لئے سخت جدوجہد کی ہے اور ہمیں اس کے جواز کے لئے بھی جانفشانی سے کام کرنا ہوگا۔ ‘‘

پٹیل اس حقیقت سے پوری طرح واقف تھے کہ آزاد بھارت کو اپنی سول، عسکری اور انتظامی بیوروکریسی کو چلانے کے لئے ایک مضبوط فریم کی ضرورت ہے۔ ان کا ادارہ جاتی نظام میں اعتماد جیسے منظم کمان پر مبنی فوج اور ایک منظم بیوروکریسی دراصل ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ پٹیل ہی تھے جنھوں نے مناسب وقت پر لکشدیپ کی بندرگاہ پر بھارتی بحریہ کو بھیجا تھا، کیونکہ پاکستان بھی عسکری طور پر اہمیت کے حامل جزائر پر قبضہ کرنے کا خواہشمند تھا۔ ہم بہتر طور پر اس بات کا احساس کرسکتے ہیں کہ اگر ہمارے پڑوسی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوجاتے تو اس وقت کیا حالت ہوتی۔ انھوں نے بھارت اور چین کے درمیان، تبت کو ایک آزاد خطہ قرار دیے جانے پر بھی زور دیا، جس کا تذکرہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ ان کی خط و کتابت میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

آر ایس ایس اور سردار پٹیل

ٹی آر وینکٹ راما شاستری کے نام مورخہ   16 جولائی 1949 کے اپنے مراسلے میں سردار پٹیل کہتے ہیں، ’’میں بذات خود پہلے ممکنہ موقع کے ساتھ ہی عائد پابندی ہٹانے کے لئے مشتاق تھا ۔۔۔۔ میں نے ماضی میں آر ایس ایس کو مشورہ دیا ہے کہ ان کے لئے، صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ کانگریس غلط راستے پر جارہی ہے تو، انھیں کانگریس کی داخلی اصلاح کرنی چاہئے۔ ‘‘

آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک، ایم ایس گولوالکر سردار پٹیل کے نام اپنے دیگر مراسلے میں رقم طراز ہیں، ’’میں نے وینکٹ راما جی وغیرہ جیسے دوستوں سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان سے ملاقات کرنے کے بعد اور ہمارے کام کاج کے بارے میں ابتدائی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد، میں آپ سے ملنے کی پوری کوشش کروں گا۔ مجھے یہ جان کر افسوس ہوا ہے کہ آپ کی صحت قدرے متاثر ہوئی ہے۔ دراصل اس خبر نے مجھے تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ملک کو آپ کی رہنمائی اور آپ کی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔ میں خدا سے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو طویل اور صحت مند زندگی عطا کرے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ جس وقت تک میری آپ سے ملاقات ہوگی، آپ کی صحت میں اچھا خاصا سدھار ہوچکا ہوگا۔ کبھی کبھی داخلی جذبات کو زبان کے توسط سے ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ آپ کے نام یہ مراسلہ تحریر کرتے ہوئے مجھے ایسا ہی احساس ہورہا ہے۔‘‘

اس مراسلے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ سردار’بغیر کسی تنازع کے گفت و شنید‘ جاری رکھنے کے لئے تیار تھے۔ الفاظ سے آگے جاکر تفہیم کی ضرورت کے لئے تحمل درکار ہے، جو صرف اس موضوع پر آزادانہ تحقیق کے توسط سے ہی ممکن ہے۔

ہندول سین گپتا،  جن کی تصنیف کردہ پٹیل کی سوانح  ’دی مین ہو سیوڈ اِنڈیا‘ جلد ہی منظرعام پر آنے والی ہے، رقم طراز ہیں: ’’سردار ولبھ بھائی پٹیل کی شخصیت، گاندھی، نہرو، پٹیل کی تکڑی میں، جو آزادی کے فوراً بعد سرفہرست شخصیات میں سب سے اہم شخصیت کہی جاسکتی ہے، شاید واحد عملی شخصیت تھی۔ بیشتر بھارتیوں کو شاید یہ احساس نہیں ہے کہ آج بھارت کا نقشہ جیسا نظر آتا ہے، ایسا ہرگز نظر نہ آتا، اگر پٹیل نے اس میں اپنا تعاون نہ دیا ہوتا۔ ان کے بغیر، بھارت کے بڑے حصے ٹوٹ کر بدنیتی کی بنیادی پر علیحدہ ہوگئے ہوتے۔ انھوں نے تقریباً تن تنہا اس بکھراؤ کو روکا۔ صرف ایک مقام جہاں پٹیل اپنی دانش مندانہ پالیسیوں کو پوری طریقے سے نافذ نہیں کرپائے، وہ کشمیر ہے اور ہم اس کے لئے آج بھی قیمت ادا کررہے ہیں۔ گاندھی کے بعد اور یہاں تک کہ بعض معالات میں مہاتما سے بہتر طور پر، پٹیل نے بھارت کی بنیادی روایات اور ثقافت کا ادراک کیا تھا۔ اگر آزادی کے بعد وہ صرف ایک دہائی اور حیات رہتے، تو ممکن تھا کہ بھارت کا یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوگیا ہوتا۔‘‘

******

 

* مصنف انڈیا فاؤنڈیشن نئی دہلی میں سینئر ریسرچ فیلو کے طور پر مصروف عمل ہیں۔

اس مضمون میں ظاہر کئے گئے خیالات مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں۔

 

 

 

UF-06- 5419