Responsive image

Press Information Bureau

Government of India

Special Service and Features

سردار پٹیل – وہ شخصیت جس نے ہندوستان کو متحد کیا

Posted On :30, October 2017 17:34 IST

http://pibphoto.nic.in/documents/rlink/2017/aug/i20178502.jpg

 

 

 

 

(آدتیہ تیواری)

 

نئی دہلی 30اکتوبر2017،     ایک برطانوی ملازم سرجان اسٹراچے اپنے زیر تربیت سول ملازمین کو یہ کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے ‘‘ ہندوستان سے متعلق سیکھنے اور سمجھنے کی سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی ہندوستان نہیں رہا ہے اور نہ ہی کبھی یہ تھا’’۔ مورخ ڈیوڈ لوڈین اپنی کتاب ‘‘ کنٹیسٹنگ دی نیشن: رلیجن، کمیونٹی اور دی پالیٹکس آف ڈیموکریسی ان انڈیا’’ میں لکھتا ہے کہ ‘‘وہ خطہ  جس  کاہم ہندوستانی تہذیب کا خاکہ بیان کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں سیاسی  سطح پر اس کی شناخت برطانوی حکومت کے ذریعہ  قائم کی گئی ۔ ہندوستان جغرافیائی، آبادیاتی اور ثقافتی اعتبار سے آج جس طرح ہے ویسا 1947 سے قبل کبھی نہیں  رہاتھا۔ ونسٹن چرچل جیسے متعدد افراد نے پیش گوئی کی تھی کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستان بکھر جائے گا اور عہد وسطیٰ جیسی اس کی حالت ہو جائے گی۔

آزادی کے بعد ہندوستان کو زبردست چیلنجوں کا سامنا تھا۔ اس وقت کے رہنماؤں کے پاس سب سے بڑا چیلنج اس ہندوستان کی حد بندی اور سرحد کا تعین کرنا تھا جو جغرافیائی اعتبار سے بدلتے عہد کے ساتھ مختلف  رہاتھا۔ ڈائناایل اک اپنی کتاب ‘‘ انڈیا- اے سیکریڈ جیوگرفی’’ میں بیان کرتی ہیں کہ بھارت کی یہ سرزمین روایتی اور اعتقادی اعتبار سے ہزاروں سال سے مذہبی زائرین کے لئے نشان راہ تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو  نے ہندوستان کو متحد کرنے کے اس احساس کے بارے میں  لکھتے ہوئے اسے ایک جذباتی تجربہ قرار دیا ہے۔ اپنی کتاب ‘‘ ڈسکوری آف انڈیا’’ میں انہوں نے ہندوستان کے کسانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کے احساس کو پیدا کرنے کے تجربے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے ‘‘ میں نے  ہر ممکن کوشش کی کہ وہ  ایسے بن جائیں کہ مجموعی اعتبار سے پورے ندوستان کے بارے میں سوچیں۔ یہ کام آسان نہیں تھا۔ تاہم یہ مشکل بھی نہیں تھا جیسا کہ میں نے تصور کیا تھا۔ ہمارے قدیم رزمیے، اعتقادات اور دیومالائی تصورات جن سے وہ بخوبی واقف تھے، ان سبھی  چیزوں نے انہیں اپنے ملک کے تصور سے  ہم آہنگ اور روشناس کرا دیا تھا۔

جغرفیائی اور جذباتی اعتبار سے ہندوستان کی تشکیل نو کا کام بیحد مشکل تھا۔ پورا ملک افراتفری کے ماحول سے گذر رہا تھا۔ ملک میں کچھ ایسی قوتیں بھی  تھیں جو  منقسم ملک ہی چاہتی تھیں۔ آزادی کے وقت مہاتما گاندھی جیسے رہنماؤں کے سامنے  سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد دو ملکوں کا ہی وجود ہوگا یا 565 مختلف ملکوں کی تشکیل ہوگی۔ ایسے مشکل وقت میں ہندوستان کی تعمیر نو اور متحد کرنے کی ذمہ داری فولادی شخصیت کے حامل  بلبھ بھائی پٹیل جیسے قابل شخص کے ہاتھوں میں گئی۔

روز بروز خراب ہوتی ہوئی صحت اور عمر کی ضعیفی کے باوجود سردار پٹیل نے متحدہ ہندوستان تشکیل دینے کے اپنے  عظیم مقصد سے کبھی توجہ نہیں ہٹائی۔ وی پی مینن، جنہوں نے اس عظیم کام میں سردار پٹیل کو زبردست تعاون کیا تھا، اپنی کتاب ‘دی اسٹوری آف دی انٹیگیرشن آف دی انڈین اسٹیٹس ’’ میں رقم طراز ہیں کہ ہندوستان جس طرح جغرفیائی اعتبار سے آج متحد ہے اس طرح سے  وہ اپنی طویل اور زبردست تاریخ کے دوران کبھی بھی سیاسی اعتبار سے متحد نہیں تھا۔ آج ملک کی پوری تاریخ میں پہلی مرتبہ کیلاش سے کنیا کماری تک، کاٹھی واڑ سے لیکر کامروپ (آسام کا پرانا نام) تک ایک واحد مرکزی حکومت قائم ہے۔ سردار پٹیل نے اس ہندوستان کو بنانے میں کلیدی رول ادا کیا۔

کانگریس نے ہندوستان کو دو ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کرنے کے 3 جون کے منصوبے کو اپنی منظوری دیدی تھی۔ ہندوستان اس وقت برطانوی مقبوضہ علاقوں اور 565 رجواڑے والی ریاستوں کا مرکب ملک  تھا۔ خود مختار رجواڑوں کو دونوں ملکوں میں سے کسی ایک میں شامل ہونے یا آزاد رہنے میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا۔ تراونکور، حیدر آباد، جون گڑھ، بھوپال اور کشمیر جیسی رجواڑہ ریاستیں ہندوستان میں شامل ہونے کی مخالفت کر رہی تھیں جبکہ گولیار، بیکانیر، بڑودہ، پٹیالہ اور دیگر ریاستوں نے سرگرمی کے ساتھ ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

سردار پٹیل بخوبی واقف تھے کہ ‘‘ آپ کے پاس جب تک کہ بہترین کل ہند سروس نہیں ہوگی آپ کے پاس متحدہ ہندوستان نہیں ہو سکتا’’۔ لہذا انہوں نے فولادی فریم یا انڈین سول سروسیز میں اعتماد پیدا کیا۔ سردار پٹیل نے رجواڑوں کے ساتھ اتفاق رائے قائم کرنے کی بھر پور اور انتھک کوشش کی لیکن انہوں نے جہاں ضروری سمجھا سام دام ، دنداور بھید کے طریقوں کو نافذ کرنے سے کبھی نہیں ہچکچاہٹ نہیں محسوس کی۔ سردار پٹیل نے اپنے معاون وی پی مینن کے ساتھ متعدد حکمرانوں کی مانگوں اور درخواستوں کو جگہ دیتے ہوئے ‘‘منجمل معاہدے اور الحاق کے دستاویزات’’ کو تیار کیا۔

سردار پٹیل اور وی پی مینن کا طریقہ کار پنڈت جواہر لال نہرو کے مقابلے  مختلف تھا۔ انہوں نے مئی 1947میں اعلان کیا کہ کوئ بھی رجواڑہ  ریاست جو آئین ساز اسمبلی میں شرکت کرنے سے انکار کرے گی اسے ایک دشمن ریاست تصور کیا جائے گا، لیکن 5 جولائی 1947  کو جاری  کیے گئے  سردار پٹیل کے ذریعہ حکومت ہند کے سرکاری پالیسی بیان میں اس طرح کی کوئی دھمکی نہیں تھی۔ انہوں نے رجواڑہ ریاستوں کو کانگریس کے ارادے کے بارے میں یقین دہانی کرائی اور انہیں آزاد ہندوستان میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ایک ساتھ ملکر دوستوں کی طرح نہ کہ دشمنوں کی طرح معاہدے تشکیل دینے کیلئے کہا۔ انہوں نے برطانوی ہندوستانی علاقوں کے ساتھ رجواڑہ ریاستوں کو باہم ملایا اور ہندوستان کو بکھرنے سے بچایا۔

سردار پٹیل اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف تھے کہ محض سیاسی اعتبار سے اس ملک کی تشکیل نو کافی نہیں ہوگی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی زخمی تہذیب پر بھی مرہم رکھنے کی ضرورت ہے اور اسے ماضی کی غلامی اور مایوسی سے نجات دلانا ہے۔ ہندوستان کے مختلف اسنوع تہذیب کے حامل افراد کے درمیان دوستی اور گیانگت پیدا کرنے کی مزید ضرورت تھی۔ 13 نومبر 1947کو اس وقت کے نائب وزیر اعظم سردار پٹٰل نے سومناتھ مندر کو دوبارہ تعمیر کرنے کا عزم کیا۔ ماضی میں سومناتھ مندر متعدد بار توڑا اور بنایا گیا تھا اور اس مندر کی تعمیر نو کی کہانی اس وقت ہندوستان کی نشاۃ ثانیہ کی کہانی کی علامت ہوگی۔سومناتھ مندر کی اختتامی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد نے کہا کہ ‘‘ میرا خیال ہے کہ سومناتھ مندر کی تعمیر نو اس دن مکمل ہوگی جب اس بنیاد پر نہ صرف ایک بڑی عمارت کھڑی ہوگی بلکہ ہندوستان کی خوشحالی بھی ایک حقیقت ہوگی بالکل ویسی ہی خوشحالی جس کی علامت یہ قدیم مندر سومناتھ رہا ہے ’’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘ سومناتھ مندر واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ تعمیر نو  کی قوت بربادی کی قوت سے بڑی ہوتی ہے۔

ہندوستانی تہذیب کی تعمیر نو میں سردار پٹیل نے ایک تاریخی کردار ادا کیا۔ ایسے وقت میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے نئے ہندوستان کیلئے آواز دی ہے۔ رجواڑہ ریاستوں کے نام لکھے ہوئے سردار پٹیل کے خطوط کے الفاظ بیحد کار آمد ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘‘ ہم ہندوستان کی تاریخ میں شاندار ارتقائی مراحل میں ہیں۔ مشترکہ وژن کے ساتھ ہم اپنے ملک کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں جب کہ نا اتفاقی ہمیں غیر متوقع حالات تک لے جائے گی، میں امید  کرتا ہوں کہ ہندوستانی ریاست اس بات کو پوی طرح سمجھے گی کہ اگر ہم عام لوگوں کے مفادات کیلئے ایک ساتھ ملکر اور آپسی اشتراک و تعاون سے کام نہیں کریں گے تو  خلفشار اور تباہی ہمیں اپنی گرفت میں لے لے گی ۔ اس میں چھوٹی اور بڑی تمام ریاستیں شامل ہوں گی  اور مکمل بربادی تک ہمیں لے جائے گی۔ ْ آیئے ہم آپسی مفادات پر مبنی تعلقات کی شاندار روایات قائم کریں ۔اس سے نا صرف ہماری اس مقدس سرزمین کو دنیا کے ملکوں کے درمیان نمایاں مقام حاصل ہوگا بلکہ اسے ایک امن اور خوشحالی  کا حامل مسکناََ بھی بنایا گیا۔

مضمون نگار انڈین فاؤڈیشن میں ایک سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔

اس مضمون میں ظاہر  کردہ افکار وخیالات مضمون  نگار کے ذاتی ہیں۔

 

*****

 

م ن۔ م ع ۔ع ج

(30-10-17)

Uf: 05