independenceday-2016

Press Information Bureau

Government of India

President's Secretariat

یوم آزادی سے قبل کی شام ( 14 اگست ، 2017 ) کے موقع پر صدر جمہوریہ ہند کا قوم کے نام پیغام

Posted On :14, August 2017 19:44 IST



تعمیر ملک کے کام میں مصروف میرے عزیز ہم وطنو ، 

یوم آزادی کے 70 برس مکمل ہونے کے موقع پر آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات ۔ کل ملک آزادی کی 70 ویں سال گرہ منانے جا رہا ہے ۔ اس سال گرہ کی ما قبل کی شام ،میں آپ سب کو دلی مبارک باد دیتا ہوں ۔ 

15 اگست ، 1947 کو ہمارا ملک ایک آزاد ملکبنا تھا ۔ خود مختاری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسی دن سے ملک کا مقدر طے کرنے کی ذمہ داری بھی برطانوی حکومت کے ہاتھوں سے نکل کر ہم بھارت واسیوں کے پاس آ گئی تھی ۔ کچھ لوگوں نے اس عمل کو ’’ اقتدار کی منتقلی ‘‘ بھی کہا تھا ۔
لیکن در حقیقت وہ صرف اقتدار کی منتقلی نہیں تھی ۔ وہ ایک بہت بڑی اور جامع تبدیلی کی گھڑی تھی ۔ وہ ہمارے پورے ملک کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہونے کا لمحہ تھا ۔ ایسے خواب جو ہمارے بزرگوں اورمجاہدین آزادی نے دیکھے تھے ۔ اب ہم ایک نئے ملک کے تخیل اور اسے حقیت میں بدلنے کے لئے آزاد تھے ۔

ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آزاد بھارت کا ان کا خواب ، ہمارے گاؤں ، غریب اور ملک کی مجموعی ترقی کا خواب تھا ۔

آزای کے لئے ہم ان سبھی بے شمار مجاہدین آزادی کے مرہون منت ہیں جنہوں نے اس کے لئے قربانیاں دی تھیں ۔

کتور کی رانی چینما ، جھانسی کی رانی لکشمی بائی ، بھارت چھوڑو آندولن کی شہید ماتنگنی ہازرہ جیسی بہادر خواتین کی بے شمار مثالیں ہیں ۔

ماتنگنی ہازرہ تقریباً 70 برس کی بزرگ خاتون تھیں ۔ بنگال کے تاملوک میں ایک پُر امن مظاہرہ کی قیادت کرتے وقت برطانوی پولیس نے انہیں گولی مار دی تھی ۔ ’وندے ماترم ‘ ان کے ہونٹوں سے نکلے آخری الفاظ تھے اور بھارت کی آزادی ، ان کے دل میں بسی آخری خواہش ۔

وطن کے لئے جان کی بازی لگا دینے والے سردار بھگت سنگھ ، چندر شیکھر آزاد ، رام پرشاد بسمل ، اشقاق اللہ خان اور برسا منڈا جیسے ہزاروں مجاہدین آزادی کو ہم کبھی بھلا نہیں سکتے ۔

آزادی کی لڑائی کی شروعات سے ہی ہم خوش نصیب رہے ہیں کہ ملک کو راہ دکھانے والی بے شمار عظیم ہستیوں اور انقلابیوں کا ہمیں آشیر واد ملا ۔
ان کا مقصد صرف سیاسی آزادی حاصل کرنا نہیں تھا ۔ مہاتما گاندھی نے سماج اور قوم کے کردار کی تعمیر پر زور دیا تھا ۔ گاندھی جی نے جن اصولوں کو اپنانے کی بات کہی تھی ، وہ ہمارے لئے آج بھی افادیت کے حامل ہیں ۔

ملک گیر اصلاحات اور جدو جہد کی تحریک میں گاندھی جی اکیلے نہیں تھے ۔ نیتا جی سبھاش چند بوس نے جب ’ تم مجھے خون دو ، میں تمہیں آزادی دوں گا ‘ کا اعلان کیا تو ہزاروں لاکھوں بھارت واسیوں نے ان کی قیادت میں آزادی کی لڑائی لڑتے ہوئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ۔
نہرو جی نے ہمیں سکھایا کہ بھارت کی صدیوں پرانی وراثت اور روایات جن پر ہمیں آج بھی فخر ہے ، ان کا تکنالوجی کے ساتھ تال میل ممکن ہے ، اوروہ روایات جدید معاشرے کی تعمیر کی کوششوں میں معاون ہو سکتی ہیں ۔

سردار پٹیل نے ہمیں قومی ایکتا اوراتحاد کی اہمیت کے تئیں بیدار کیا ۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی سمجھایا کہ نظم و ضبط سے مملو قومی کردار کیا ہوتا ہے۔

بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنے اور ’’ قانون کی حکمرانی ‘ کی ناگزیریت کے موضوع کو واضح کیا ۔ ساتھ ہی ، انہوں نے تعلیم کی بنیادی اہمیت پر بھی زور دیا ۔

اس طرح ، میں نے ملک کے کچھ ہی اہم رہنماؤں کی مثال دی ہے ۔ میں آپ کو اور بھی بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں ۔ ہمیں جس نسل نے آزادی دلائی ، اس کا دائرہ بہت وسیع تھا ، اس میں بہت کثرت تھی ۔ اس میں خواتین بھی تھیں اور مرد بھی ، جو ملک کے الگ الگ طبقوں اور مختلف سیاسی اور سماجی مکتبہ ہائے فکر کی نمائندگی کرتے تھے ۔

آج دیش کے لئے اپنی زندگی قربان کر دینے والے ایسے بہادر مجاہدین آزادی سے تحریک لے کر آگے بڑھنے کا وقت ہے ۔ آج دیش کے لئے کچھ کر گزرنے کے جذبے کے ساتھ تعمیر قوم میں جٹے رہنے کا وقت ہے ۔

اخلاقیات پر مبنی اصولوں اور اسکیموں کو لاگو کرنے پر ان کا زور ، ایکتا اور ڈسپلن میں ان کا غیرمتزلزل یقین ، وراثت اور سائنس کے امتزاج میں ان کا اعتقاد ، قانون کے مطابق حکمرانی اور تعلیم کی حوصلہ افزائی ، ان سب کی بنیاد میں شہریوں اور حکومت کے مابین اشتراک کا نظریہ تھا ۔
یہی اشتراک ، ہماری تعمیر ملک کی بنیاد رہاہے ۔ شہریوں اور حکومت کے درمیان ساجھے داری ، کنبہ اور ایک بڑے فرقے کے مابین اشتراک ۔

میرے پیارے دیش واسیو ، 

اپنے بچپن میں دیکھی گئی گاؤوں کی ایک روایت مجھے آج بھی یاد ہے ۔ جب کسی ایک کنبے میں بیٹی کی شادی ہوتی تھی تو گاؤں کا ہر کنبہ اپنی اپنی ذمہ داری بانٹ لیتاتھا اور تعاون کرتا تھا ۔ ذات یا فرقہ کوئی بھی ہو ، وہ بیٹی اس وقت صرف ایک کنبے کی ہی بیٹی نہیں ، بلکہ پورے گاؤں کی بیٹی ہوتی تھی۔ 
شادی میں آنے والے مہمانوں کی دیکھ بھال ، شادی کے الگ الگ کاموں کی ذمہ داری ، یہ سب پڑوسی اور گاؤں کے سارے لوگ آپس میں طے کر لیتے تھے ۔ ہر کنبہ کوئی نہ کوئی مدد ضرور کرتا تھا ۔ کوئی کنبہ شادی کے لئے اناج بھیج دیتا تھا ، کوئی سبزیاں بھیج دیتا تھا و تو کوئی تیسرا کنبہ ضرورت کی دیگر چیزوں کے ساتھ پہنچ جاتا تھا ۔

اس وقت پورے گاؤں میں اپنے پن کا جذبہ ہوتا تھا، ساجھے داری کا جذبہ ہوتا تھا ، ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ ہوتا تھا ۔ اگر آپ ضرورت کے وقت اپنے پڑوسیوں کی مدد کریں گے تو یقیناً وہ بھی آپ کی ضرورت کے وقت مدد کرنے کے لئے آگے آئیں گے ۔

لیکن آج بڑے شہروں میں صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ بہت سے لوگوں کو برسوں تک یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے پڑوس میں کون رہتا ہے۔  اس لئے ، گاؤں ہو یا شہر ، آج سماج میں اسی اپنائیت اور ساجھے داری کے جذبے کو از سر نو جگانے کی ضرورت ہے ۔ اس سے ہمیں ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے اور ان کی عزت کرنے میں اور متوازن ، حساس اور خوش حال سماج کی تعمیر کرنے میں مدد ملے گی۔
آج بھی ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کرنے کا جذبہ ، خدمت خلق کا جذبہ اور خود آگے بڑھ کر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ، ہماری رگ رگ میں بسا ہوا ہے ۔ بے شمار افراد اور تنظیمیں ، غریبوں اور محروموں کے لئے چپ چاپ اور پوری لگن سے کام کر رہی ہیں ۔
ان میں سے کوئی بے سہارا بچوں کے لئے اسکول چلا رہا ہے ، کوئی لاچار مویشیوں ، پرندوں کی خدمت میں مصروف ہے ، کوئی دور دراز کے علاقوں میں قبائل تک پانی پہنچا رہا ہے ، کوئی ندیوں ور عوامی مقامات کی صفائی میں لگا ہوا ہے ۔ اپنی دھن میں مگن یہ سبھی قوم کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہمیں ان سب سے تحریک لینی چاہئیے۔

تعمیر قوم کے لئے ایسے لوگوں کے ساتھ سبھی کو جڑنا چاہئیے ۔ ساتھ ہی حکومت کے ذریعہ کی جا رہی کوششوں کا فائدہ ہر طبقے تک پہنچے ، اس کے لئے ایک جٹ ہو کر کام کرنا چاہئیے ۔ اس کے لئے شہریوں اور حکومت کے درمیان ساجھے داری اہمیت کی حامل ہے ۔

* حکومت نے’ سوچھ بھارت ‘مہم شروع کی ہے لیکن بھارت کو صاف ستھرا بنانا ، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔

* حکومت بیت الخلا ء بنا رہی ہے اور بیت الخلاؤں کی تعمیر کو اہمیت دے رہی ہے ، لیکن ان بیت الخلاؤں کو استعمال کرنا اور ملک کو کھلے میں فراغت سے نجات دلانا ، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔ 

* حکومت ملک کے مواصلاتی ڈھانچے کو مضبوط بنا رہی ہے ، لیکن انٹر نیٹ کا صحیح مقصد کے لئے استعمال کرنا ، معلومات کی سطح میں غیر یکسانیت کو ختم کرنا ، ترقی کے نئے مواقع پیدا کرنا ، تعلیم اور اطلاعات کی رسائی بڑھانا ، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔

* حکومت بیٹی بچاؤ ۔ بیٹی پڑھاؤ مہم کو طاقت دے رہی ہے لیکن یہ طے کرنا کہ ہماری بیٹیوں کے ساتھ بھید بھاؤ نہ ہو اور وہ بہتر تعلیم حاصل کریں ، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔

* حکومت قانون بنا سکتی ہے اور قانون لاگو کرنے کے عمل کو مضبوط کر سکتی ہے لیکن قانون پر عمل در آمد کرنے والا شہری بننا ، قانون پر عمل کرنے والے سماج کی تعمیر کرنا ، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔

* حکومت شفافیت پر زور دے رہی ہے ، سرکاری تقرریوں اور سرکاری خرید اری میں بد عنوانی ختم کر رہی ہے ، لیکن روز مرہ کی زندگی میں اپنے ضمیرکو صاف رکھتے ہوئے کام کرنا ، کام کاج کی پاکیزگی برقرار رکھنا ہم میں سے ہر ایک کی  ذمہ داری ہے ۔


* حکومت نے ٹیکس کے نظام کو سہل بنانے کے لئے جی ایس ٹی کو لاگو کیا ہے ، عمل کو آسان بنایا ہے ، لیکن اسے اپنے ہر کام کاج اور لین دین میں شامل کرنا اور ٹیکس دینے میں فخر محسوس کرنے کے جذبے کو آگے بڑھانا ، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔

مجھے خوشی ہے کہ ملک کے عوام نے جی ایس ٹی کو جوش کے ساتھ قبول کیا ہے ۔ حکومت کو جو بھی مالیہ ملتا ہے ، اس کا استعمال ملک کی تعمیر کے کاموں میں ہوتا ہے ۔ اس سے کسی غریب اور پچھڑے کو مدد ملتی ہے ، گاؤوں اور شہروں میں بنیادی ضروریات کی تعمیر ہوتی ہے ، اور ہمارے ملک کی سرحدوں کی حفاظت مضبوط ہوتی ہے ۔

پیارے دیش واسیو ، 

2022 میں ہمارا ملک اپنی آزادی کے 75 سال پورے کرے گا ۔ تب تک ’ نیو انڈیا ‘ کے لئے کچھ اہم نشانوں کا حاصل کرنا ہما را قومی عہد ہے ۔
جب ہم ‘ نیو انڈیا’ کی بات کرتے ہیں تو ہم سب کے لئے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ کچھ تو بڑے ہی واضح پیمانے ہیں جیسے ہر کنبے کے لئے گھر ، مانگ کے مطابق بجلی ، بہتر سڑکیں اور مواصلات کے ذرائع ، جدید ریل نیٹ ورک ، تیز او ر ہمہ گیر ترقی ۔

لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ’ نیو انڈیا ‘ ہمارے ڈی این اے میں رچے بسے انسانی اصولوں کو مجموعی انسانی اقدار سے ہم آہنگ کرے ۔ یہ انسانی اقدار ہمارے ملک کی تہذیب کی پہچان ہیں ۔ یہ ’ نیو انڈیا ‘ ایک ایسا سماج ہونا چاہئیے جو مستقبل کی جانب تیزی سے بڑھنے کے ساتھ ساتھ حساس بھی ہو ۔

ایک ایسا حساس سماج ، جہاں روایتی طور پرمحروم لوگ ، خواہ وہ درج فہرست ذ ات کے ہوں یا ،درج فہرست قبائل کے ہوں یا پچھڑے طبقے کے ہوں ، ملک کی ترقی کے عمل میں ساجھے دار بنیں ۔ 

* ایک ایسا حساس سماج ، جو ان سب ہی لوگوں کو اپنے بھائیوں اور بہنوں کی طرح گلے لگائے ، جو ملک کے سرحدی اضلاع میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی خود کو دیش سے کٹا ہوا سا محسوس کرتے ہیں ۔

* ایک ایسا حساس سماج ، جہاں محروم بچے ، بزرگ اور بیمار معمر شہری ، اورغریب لوگ ، ہمیشہ ہمارے مرکزخیال میں رہیں ۔ اپنے معذور بھائی بہنوں پر ہمیں خاص دھیان دینا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ انہیں زندگی کے ہر شعبے میں دیگر شہریوں کی طرح آگے بڑھنے کے زیادہ سے زیاد ہ مواقع ملیں۔

* ایک ایسا حساس اوریکسانیت پر مبنی سماج ، جہاں بیٹا اور بیٹی میں کوئی تفریق نہ ہو ، مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو ۔

* ایک ایسا حساس معاشرہ جو انسانی وسائل کی شکل میں ہماری پونجی میں اضافہ کرے ، جو عالمی سطح پرتعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو کم خرچ پر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع دیتے ہوئے انہیں خوش حال بنائے اور جہاں بہتر صحت سہولیات اور ناص تغذیہ کاچیلنج در پیش نہ ہو ۔
نیو انڈیا کا مطلبہے کہ ہم جہاں پر کھڑے ہیں وہاں سے آگے جائیں ۔ تبھی ہم ایسے نیو انڈیا کی تعمیر کر پائیں گے جس پر ہم سب فخر کر سکیں ۔ ایسا نیو انڈیا جہاں ہر ہندوستانی اپنی صلاحیتوں کا پوری طرح فروغ اور استعمال کرنے پر اس طرح قادر ہو کہ ہر ہندوستانی خوش حال رہے ۔ یہ ایک ایسا نیو انڈیا بنے جہاں ہر شخص کی پوری صلاحیت اجاگر ہو سکے اور وہ سماج اور قوم کے لئے اپنا تعاون کر سکے ۔

مجھے پورا بھروسہ ہے کہ شہریوں اور حکومت کے درمیان مضبوط اشتراک کے زور پر نیو انڈیا کے ان مقاصد کو ہم ضرور حاصل کریں گے ۔
نوٹ بندی کے وقت جس طرح آپ نے صبر کے ساتھ کالے دھن اور بد عنوانی کے خلاف کارروائی کی حمایت کی ، وہ ایک ذمہ دار اور حساس سماج کا ہی عکسہے ۔ نوٹ بندی کے بعد سے ملک میں ایمان داری کو بڑھاوا ملا ہے ۔ ایمان داری کا جذبہ دن بہ دن اور مضبوط ہو ، اس کے لئے ہمیں لگاتارکوششیں کرتے رہنا ہوگا ۔

میرے پیارے دیش واسیو ،

جدید تکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے دیش واسیوں کو مستحکم بنانے کے لئے تکنالوجی کا استعمال کرنا ہی ہوگا تاکہ ایک ہی پیڑھی کے دوران غریبی کو مٹانے کا نشانہ حاصل کیا جا سکے ۔ نیو انڈیا میں غریبی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ 
آج پوری دنیا بھارت کو احترام سے دیکھتی ہے ۔ آب و ہوا کی تبدیلی ، قدرتی آفات ، آپسی ٹکراؤ ، انسانی خطرات اور دہشت گردی جیسے متعدد بین الاقوامی چیلنجوں سے نمٹے میں عالمی سطح پر بھارت اہم کردار نبھا رہا ہے ۔

عالمی برادری کی نظر میں بھارت کے احترام کو مزید بڑھانے کا ایک موقع ہے ۔ 2020 میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں بھارت کے مظاہرے کو موثر بنانا ہے ۔ اب سے تقریباً تین برسوں میں حاصل کئے جانے والے اس مقصد کو ایک عالمی مشن کے طور پر لینا چاہئیے ۔ حکومتیں ، کھیل کود سے وابستہ ادارے اور کاروباری ادارے ایک جٹ ہو کر با صلاحیت کھلاڑیوں کو آگے لانے ، انہیں عالمی سطح کی سہولیات اورٹریننگ مہیا کرانے میں اس طرح سے لگ جائیں جس سے کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ کامیابی مل سکے ۔

خواہ ہم دیش میں رہیں یا غیر ملک میں ، دیش کے شہریوں اور بھارت کی اولاد ہونے کے ناطے ہمیں ہر پل اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتے رہنا چاہئیے کہ ہم اپنے ملک کے وقار کو کیسے بڑھا سکتے ہیں ۔

پیارے دیش واسیو 

اپنے کنبے کے بارے میں سوچنا فطری امرہے لیکن ساتھ ساتھ اپنے مجموعی سماج کے بارے میں بھی سوچنا چاہئیے ۔ ہمیں اپنے ضمیر کی آواز پر ضرور دھیان دینا چاہئیے جو ہم سے تھوڑا اور زیادہ بے لوث ہونے کے لئے کہتی ہے ۔ ذمہ داری پر عمل سے کہیں آگے بڑھتے ہوئے ہمیں مزید کچھ کرنے کے لئے پکارتی ہے ۔ اپنے بچے کی پرورش کرنے والی ماں صرف اپنی ذمہ داری ہی نہیں نبھاتی ۔ وہ غیر معمولی لگن اور وفا داری سے ایسی مثال پیش کرتی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔

تپتے ہوئے ریکستانوں اور ٹھنڈے پہاڑوں کی اونچائیوں پر ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ہمارے فوجی صرف اپنا فرض ہی ادا نہیں کرتے بلکہ بے لوث جذبے سے دیش کی خدمت کرتے ہیں ۔

دہشت گردی اور جرائم سے مقابلہ کرنے کے لئے موت کو للکارتے ہوئے ہمیں محفوظ رکھنے والے ہمارے پولیس اور نیم فوجی دستوں کے جوان صرف اپنی ذمہ داری ہی ادا نہیں کرتے بلکہ بے لوث جذبے سے دیش کی خدمت کرتے ہیں ۔

* ہمارے کسان، دیش کے کسی دوسرے کونے میں رہنے والے اپنے ان اہل وطن کا پیٹ بھرنے کے لئے جنہیں انہوں نے کبھی دیکھا تک نہیں ہے ، بے حد مشکل حالات میں کڑی محنت کرتے ہیں ۔ وہ کسان صرف اپنا کام ہی نہیں کرتے ۔ بلکہ بے لوث جذبے سے دیش کی خدمت کرتے ہیں۔
* قدرتی آفات کے بعد راحت اور بچاؤ کے کام میں دن رات جٹے رہنے والے حساس شہری ، رضا کار تنظیموں سے وابستہ لوگ ، سرکاری ایجنسیوں میں کام کرنے والے ملازم صرف اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہے ہوتے ۔ بلکہ وہ بے لوث جذبے سے دیش کی خدمت کرتے ہیں ۔
کیا ہم سب دیش کی بے لوث خدمت کے اس جذبے کو اپنا نہیں سکتے ؟ مجھے یقین ہے کہ ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں ، اور ہم نے ایسا کیا بھی ہے ۔
وزیر اعظم کی ایک اپیل پر ، ایک کروڑ سے زیادہ کنبوں نے اپنی مرضی سے ایل پی جی پر ملنے والی سبسڈی چھوڑ دی ۔ ایسا ان کنبوں نے اس لئے کیا کہ ایک غریب کے کنبے کی رسوئی تک گیس سلنڈرپہنچ سکے اور اس کنبے کی بہو بیٹیاں مٹی کے چولہے کے دھوئیں سے ہونے والے آنکھ اور پھیپھڑے کے امراض سے بچ سکیں ۔

میں سبسڈی ترک کرنے والے ایسے کنبوں کو سلام کرتا ہوں ۔ انہوں نے جو کیا ، وہ کسی قانون یا سرکاری حکم کو بجا لانے کے لئے نہیں تھا ۔ ان کے اس فیصلے کے پیچھے ان کے ضمیر کی آواز تھی ۔

ہمیں ایسے کنبوں سے ترغیب حاصل کرنی چاہئیے ۔ ہم میں سے ہر ایک کو سماج میں تعاون دینے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں ۔ ہم میں سے ہر ایک کو ئی اور ایسا کام منتخب کرنا چاہئیے جس سے کسی غریب کی زندگی میں تبدیلی آ سکے ۔ 

تعمیر قوم کے لئے سب سے ضروری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل پر پورا دھیان دیں ۔ اقتصادی یا سماجی بندشوں کے باعث ہمارا ایک بھی بچہ پیچھے نہیں رہ جائے ۔ اس لئے میں تعمیر ملک میں لگے آپ سبھی لوگوں سے سماج کے غریب بچوں کی تعلیم میں مد دکرنے کی درخواست کرتا ہوں ۔ اپنے بچے کے ساتھ ہی کسی ایک اور بچے کی پڑھائی میں مدد کریں ۔ یہ مدد کسی بچے کا اسکول میں داخلہ کرانا ہو سکتی ہے ، کسی بچے کی فیس بھرنی ہو سکتی ہے ، کسی بچے کی کتابیں خریدنا ہو سکتی ہے ۔ زیادہ نہیں ، صرف ایک بچے کے لئے ۔ سماج کا ہر شخص بے لوث جذبے سے ایسے کام کر کے تعمیر قوم میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔

آج بھارت عظیم حصولیابیوں کے داخلی دروازے پرکھڑا ہے ۔ آئندہ چند برسوں میں ہم ایک مکمل خواندہ سماج بن جائیں گے ۔ ہمیں تعلیم کے پیمانے اور بھی بلند کرنے ہوں گے ۔ تب ہی ہم ایک مکمل اور تعلیم یافتہ اور مہذب سماج بن سکیں گے ۔

ہم سبھی ان اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش میں ساجھے دارہیں ۔ جب ہم ان اہداف کو حاصل کریں گے ، تو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ملک میں رونما ہوتی ہوئی ایک عام تبدیلی ملاحظہ کرسکیں گے ۔اس طرح ہم ایک تبدیلیکے علمبردار بنیں گے۔ تعمیر ملک کی سمت میں کی گئیٰ یہ کوشش ہی ہم سب کی حقیقی ریاضت ہو گی ۔

ڈھائی ہزار برس قبل ، گوتم بدھ نے کہا تھا ، اپ دیپو بھوو ۔ ۔ ۔ یعنی اپنا چراغ آپ بنیں ۔۔۔۔ اگر ہم ان کی اس تعلیم کو اپناتے ہوئے آگے بڑھیں تو ہم سب مل کر آزادی کی جدو جہد کے دوران پیدا ہوئے جوش اور امنگ کے جذبے کے ساتھ ، سوا سو کروڑ چراغ بن سکتے ہیں ۔ ایسے چراغ جب ایک ساتھ روشن ہوں گے ، تو سورج کی روشنی کی طرح ، وہ روشنی مہذب اور ترقی یافتہ بھارت کے راستے کو منور کرے گی ۔ 
میں ایک بار پھر آپ سبھی کو ملک کی آزادی کی 70 ویں سال گرہ کی ما قبل شام ، دلی نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں ۔ جے ہند ۔ وندے ماترم ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

U.3994